Skip to content
Home » Blog » شمال کی وادی سے پرواز… ایک تمثیل بیان مقصد لکھیے، انشے ورکشاپ ، دوسرا انشا POWER OF PURPOSE, INSHAY SERIAL WORKSHOP, PART 2

شمال کی وادی سے پرواز… ایک تمثیل بیان مقصد لکھیے، انشے ورکشاپ ، دوسرا انشا POWER OF PURPOSE, INSHAY SERIAL WORKSHOP, PART 2

Join the power of purpose. This inshay serial workshop is designed to help you write a personal mission statement containing purpose, direction, and priorities in your life

کیا ہم زندگی کی مقصدیت سے جڑنا چاہتے ہیں؟  اگر ہاں تو یہ انشے سیریل ورکشاپ بیان مقصد یا مشن سٹیٹمنٹ لکھنے میں مددگار ہو گی. یعنی ایک ایسی ذاتی تحریر جس میں ہم اپنی زندگی کے مقصد ، اپنے سفر کی سمت  اور زندگی میں کیا اہم ہے اور کیا نہیں کی سادہ لفظوں میں وضاحت کر سکتے ہیں ، اسے سمجھ سکتے ہیں

 شمال کی وادی سے پرواز… ایک تمثیل
مقصدیت سے جڑیے ، بیان مقصد لکھیے، انشے ورکشاپ ، دوسرا انشا، شارق علی
 اونچے اونچے برف پوش پہاڑوں سے گھری شمال میں واقع کشادہ وادی کے بیچوں بیچ یخ بستہ جھیل کے کنارے پر تیرتا ہوا راج ہنس پانی سے نکل کر ساتھ لگی گھاس کے سر سبز و شاداب میدان میں ڈگمگ ڈگمگ چلتے ہوئے اپنی مخصوص پُکار سے اپنے نو عمر اور تجربہ کار ساتھیوں کو آواز دیتا ہے۔ اس کے یہ ساتھی کہ جو جابجا جھیل کے کنارے پر تیر رہے ہیں یا سبزہ زار پر چہل قدمی کررہے ہیں۔ اُس کی پُکار اور پیش قدمی میں ایک تکونی ڈار بنا کر گھاس کے میدان میں پہلے پیدل چلنا اور پھر دوڑنا شروع کردیتے ہیں ۔قدم آہستہ آہستہ تیز ہوتے ہیں، اور پھر بازوئوں کے ساتھ لگے ہوئے پر دھیرے دھیرے کھلنے لگتے ہیں۔ قیادت کرنے والے راج ہنس کا دل اس موقع پر ملے جلے جذبات سے بھرا ہوا ہے. اُسے محسوس ہوتا ہے کہ اُس کی ڈار کے بیشتر نو عمر مگر توانا ساتھی، اس طویل پرواز کے آغاز میں ہچکچاہٹ اور خوف محسوس کررہے ہیں۔ اپنی رفتار قدم بہ قدم تیز کرتے ہوئے راج ہنس سوچتا ہے. آخر کیوں پرواز کی سرخوشی تک پہنچنے کے لیے خوف سے ہوکر گذرنا پڑتا ہے۔ آخر کیوں مکمل آزادی اور مسرت کو حاصل کرنے کے لیے شک اور شبہات کی منفی تند ہوائوں کو زیر کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو اس کے قبیلے کانسلی اعزاز ہے کہ وہ قوانین قدرت اور اپنی جبلی فطرت کے زیرِ اثر ہر سال ہزاروں میل کا طویل اور دشوار گزار سفر طے کرکے جنوب میں واقع گرم جھیلوں کے کنارے اپنی اور اپنے آباو اجداد کی قائم کردہ اور طے شدہ قیام گاہوں تک پہنچتے آئے ہیں۔ یہ سفر تو فطرت کا تقاضہ بھی ہے اور اُن کے قبیلے کا امتیاز بھی۔ ہوائیں کیسی ہی تند اور کیسی ہی تیز کیوں نہ ہوں، جب وقت آجائے تو یہ سفر طے کرنا ہی پڑتا ہے۔ کھلے بازوئوں کے ساتھ تیزی سے بھاگتا ہوا ، ڈار کی قیادت کرنے والا  راج ہنس یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ وادی کی دلکش اور آرام دہ سطح زمین ایک دفع چھوڑ دینے کے بعد اس کی ڈار کے لیے سوائے ہوا کے، تند اور تیز ، بے رحم ہوا کے کہ جو کھلے ہوئے بازوئوں کو پرواز میں مدد دے،  اور کچھ بھی نہیں کہ جس پر قیام کیا جاسکے، بھروسہ کیا جاسکے۔ اس کے تیز قدم ابھی زمین ہی پر ہیں۔ اور یہ خیال اس کے دل میں آتا ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ ہوا اس بار کھلے ہوئے بازوئوں کی پرواز میں مددگار ثابت نہ ہو۔ اس خوف آمیز خیال کے باوجود راج ہنس یہ جانتا ہے کہ اب وقت آچکا اور اس کے نوعمر ساتھی نشودونما کے مراحل سے گزر کر کھلے آسمانوں میں پرواز کے لیے تیار ہیں۔ اب بس ایک مرحلہ باقی ہے، آخری اور فیصلہ کُن مرحلہ . قدم تیز ہیں اور بازو کھلے ہوئے اور یہ مرحلہ ہے زمین چھوڑ دینے کا مرحلہ۔ راج ہنس کے دل میں اس خوف آمیز خیال سے بڑھ کر ایک اور طاقت ہے، دانائی کی طاقت۔ اور یہ طاقت اُسے بتاتی ہے کہ جب تک اُس کے نوعمر ساتھی اپنے بازوئوں کی توانائی کو پرواز کی مدد سے پہچان نہیں لیں گے، وہ اپنی زندگی کے مقصد کو کبھی بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اگر وہ مخالف ہوائوں پر فتح یاب نہ ہوسکے تو ہنس کی حیثیت سے اُن کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔ وہ خود شناسی سے محروم رہ جائیں گے اور زمین چھوڑنے کی یہ آخری جست ایک خوبصورت تحفہ ہے، ایک اہم ترین اور نادر تحفہ اور سب سے عظیم تر اظہارِ محبت.  اور اسی لیے راج ہنس ہمت کرتا ہے اور جست لگا کر ہوا میں بلند ہوجاتا ہے۔  ایک ایک کرکے اس کے نوعمر ساتھی اس کی تقلید میں وادی کی پُرآسائش زمین کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اور یہ نوعمر ہنس پرواز کے شروع میں تھرتھراتے ہیں خوف سے، جیسے ڈار سے ٹوٹ کر گرجائیں گے مگر پھر سنبھلتے ہیں اور بلند تر ہوائوں میں پرواز کر جاتے ہیں— جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *