Enjoy the story of Aristotle. Father of modern science, one of the greatest Athenian philosophers, pupil of Plato and teacher of Alexander the Great
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
سائینس کا بابا، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستائیسوں انشا، شارق علی
اونچائی سے جھرنے کا پانی جب کائی زدہ چٹانوں پر گرتا تو تیز ہوا کے ساتھ بوندوں کی پھوار دور تک جاتی. دادا جی کی کرسی اور گھانس پر بچھی ہماری پکنک دری بوندوں کی پھنچ سے ذرا دور تھی . پھر بھی گھانس اور ارد گرد کے درختوں میں نمی کا احساس تھا. یانی آپا تصویریں کھینچنے اور دوستوں کو انسٹاگرام کرنے میں مصروف تھیں. دادا جی کرسی پر نیم دراز اخبار سے منہ ڈھانپے شاید سو رہے تھے. بابل اور مجھ میں بحث جاری تھی . مینڈک تیز تیرتا ہے یا بطخ . بحث حد سے بڑھی تو دادا جی نے اخبار ایک طرف رکھا اور پاس آ کر بیٹھ گئے. کہنے لگے. افلاطون کا شاگرد اور سکندرکا استاد ارسطو تم دونوں کی طرح فطرت اور جنگلی حیات میں گہری دلچسپی رکھتا تھا. تو پھر ہو جاۓ ارسطو کی کہانی. میں اور بابل یک زبان بولے. دادا جی نے کہا. ارسطو ٣٨٤ ق م میں یونان میں پیدا ہوا اور باسٹھ سال کی عمر پائی . آج کا سائنسی طریقہ کار یعنی مشاہدہ اور اس پر منطقی دلائل سب سے پہلے اس نے اختیار کیا تھا. وہ بلا شبہ جدید سائنس کا بانی ہے. اس کا باپ شاہی طبیب تھا. بچپن میں شاہی دربار میں اس کی ملاقات سکندر سے ہوئی. سکندر نے بعد میں ارسطو سے فلسفے، ریاضی اور منطق کی تعلیم پائی اور دنیا کے ایک وسیع علاقے کو فتح کیا. ابتدائی تعلیم پانے کے بعد ارسطو سترہ سال کی عمر میں ایتھنز جا کر افلاطون کی درسگاہ اکیڈ می میں اگلے بیس برس تک پہلے شاگرد اور پھر استاد رہا. اکیڈ می کا طریقہ تعلیم یہ تھا کے شاگرد اور استاد جمع ہوتے اور آغاز کسی سوال سے ہوتا. کوئی جواب دیتا اور پھر سب خیال آرائی اور مکالمے کے ذریعے علم حاصل کرتے. یانی آپا نے پہلے تو آئی فون سے ہم سب کی تصویر اتاری پھرگفتگو میں شریک ہو کر بولیں. اکیڈ می چھوڑنے کے بعد ارسطو نے یونان اور ترکی کی سیاحت اور شادی بھی کی. جانوروں کی حیات اور ان کی افزائش پر تفصیلی کتاب لکھی. انھیں مختلف خاندانوں اور قسموں میں تقسیم کیا. ان کے حصّہ جسم کی تفصیلی تصویریں بنائیں اور افعال کی وضاحت کی.پھر وہ دوبارہ ایتھنز آیا اور اپنے قائم کردہ اسکول لائسیم میں طبعیات، سیاست، منطق اور فلسفے کی تعلیم دینے لگا. اس کی سوچ اچھوتی اور طریقہ کار منفرد تھا، مشاہدات کی تفصیل کو من وعن تحریر کرنا اور بات کی تہہ تک پھنچنے کے لئے تجربات مثلا جانوروں کی چیر پھاڑ بھی کرنا. جب کے روایتی یونانی فلسفی صرف سوچ و بچارہی پر انحصار کیا کرتے تھے. ارسطو کہتا ہے کہ کسی بھی واقعے کی وضاحت چار جوازوں کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے. مادی جواز، روایتی جواز، افادیتی جواز اور حتمی جواز. ڈھائی ہزار سال پہلے کے اس عقلمند انسان نے کچھ احمقانہ خیال بھی پیش کئیے . مثلا یہ کہ دنیا گول ہے مگر ساکت اور کائنات کا مرکز. یا ذہانت کا منبع دل ہے دماغ نہیں…..جاری ہے