This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summerVACATION HOME in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
ریل کی سیٹی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، انتیسواں انشا، شارق علی
سیٹی بجاتی ریل سرنگ سے باہر نکلی اور ندی پہ بنا پل عبور کر کے ہلکا سا موڑ مڑی اور پھول بن کے اسٹیشن پر آ کھڑی ہوئی. سیب کے جن درختوں کے نیچے ہم بیٹھے ہوئے تھے وہ مقام اتنی بلندی پر تھا کہ وادی کا بیشتر حصّہ صاف دکھائی دیتا تھا.صبح کوہ رمز کی سمت سیر کو نکلے تو کچھ ہی دیر بعد دادا جی کی سانس پھولتی دیکھ کر انکل نے کچھ دیر یہاں رکنا مناسب سمجھا تھا. یا نی آپا بولیں. ریل کی سیٹی بھی کیا ملا جلا سنگیت ہے. الوداع، خوش آمدید، ھجر ، ملاپ، آغاز اور انجام، سب ہی رنگ ہیں اس میں. انکل نے کہا. بچپن کے کینوس پر ریل کے سفر کی تصویر بناؤں تو بابو کی سفید وردی، قلی کی لال قمیض، پلیٹ فارم کی سترنگی چہل پہل کے رنگوں میں سیٹی اور انگڑائی لے کر جاگتے انجن کے پہیوں کی کھٹ کھٹ بھی شامل ہو جاتی ہے. بلکہ ایک بے چین کر دینے والی مہک بھی. جیسے پراٹھوں، بھنے قیمے اور آلو ترکاری کا ٹفن بس ابھی کھلا ہو. دادا جی مسکرائے اور ریل کی پٹڑی کی طرف دیکھتے ہوۓ بولے. ریلوے کا نظام تو ١٨٢١ میں ایجاد ہوا. چار سال تیاری کے بعد پہلی ریل ١٨٢٥ میں اسٹاک ہوم اور ڈارلنگٹن کے درمیان چلی. دنیا میں انقلاب آ گیا. یہ جادو برصغیر بھی پہنچا. انگریز معاشی، سیاسی اور فوجی گرفت مضبوط کرنا چاہتے تھے اور کلکتہ بمبئی کے تاجر تجارت کا فروغ. کہتے ہیں ٹیگور کے دادا دوارکا ناتھ نے کلکتہ سے ٹرین چلانے کے لئے بڑی رقم خرچ کی تھی . پہلی باقاعدہ ٹرین ١٨٥٣ میں بمبئی اور تھانہ کے درمیان چلی. یا نی آپا نے ادھ پکا سیب شاخ سے توڑا اور بولیں. بس چلے تو امتحان کی فکر چھوڑوں اور سلی گری سے دارجلنگ جاتی ٹرین میں سوار ہو جاؤں. میدانوں، چائے کے باغوں، ٹیک کے جنگلوں، سر سبز وادیوں اور ہمالیہ کے دلکش نظارے جیسے کنچن جنگا کی چوٹیاں دیکھوں. میں نے آ ئی پوڈ کا پاور آف کیا اور بولا. درجیلنگ سے واپسی پر کیا ہی اچھا ہو کہ میں اور آپ ناروے چلیں. اوسلو سے برگن لائن نامی ٹرین میں بیٹھ کر شمالی یورپ کے برف پوش پہاڑوں، ان میں بنی سرنگوں کی بھول بھلیوں اور راستے میں بکھرے برفانی گلشیر کے حسن سے آنکھوں کو سیراب کریں. پھر میں نے مڑ کر دادا جی سے پوچھا . ٹرین کے سفر سے جڑا آپ کا کوئی خواب؟دادا جی کچھ اداس ہو کر بولے. اب تو یہ خواب پورا ہونا مشکل ہے. خیبر پاس میں بیٹھ کر وقت اور تاریخ کے درمیان سے ہو کر گزرنا. پشاور سے لنڈی کوتل تک آگے پیچھے لگے بھاپ کے انجنوں کے بیچ میں بس تین ڈبے. سفر صرف ٣٢ میل کا. لیکن اس دوران خطّے کی ہزاروں سالہ تاریخ کے گواہ سنگلاخ پہاڑوں میں چونتیس سرنگوں اور با نوے پلوں پر سے گزر کر ساڑھے تین ہزار فٹ کی بلندی پر اپنی منزل لنڈی کوتل پہنچنا. صد افسوس کے سیلابوں اور حکمرانوں کی کوتاہ نظری کے سبب ٢٠٠٦ کے بعد یہ یادگار سفر ممکن نہیں رہا ………جاری ہے