تھیمز کے کنارے کونکریٹ ٹایلوں والی کشادہ گزرگاہ کے بیچ قد آدم مائکروفون اسٹینڈ کے پیچھے کھڑا دراز قد، بڑھی داڑھی ، سنہرے گھنگریالے بال، ہاتھوں میں گٹار ، زخموں سے چور جینز اور ڈھیلی فلیس پہنے وہ بسکر جون لینن کا گانا امیجن گا رہا تھا۔
تصور کرو ہم انسان صرف آج میں ژندہ ہیں
نہ ملک نہ سرحدیں نہ مزہب
کاش ہم صرف امن میں ژندہ ہوں
تم کہو گے میں خواب گر ہوں
مگر یہ اتنا ناممکن تو نہیں
اس کے بائیں ہاتھ پر دھرے دو کنگ سائز سپیکرز کھلے میدان میں موجود ہجوم میں بھی کنسرٹ ہال کا ماحول بنانے میں کامیاب تھے۔ سامنے دھرے گٹار کے چرمی بیگ میں چند سکے بکھرے ہوے تھے۔ ہم کچھ دیر کھڑے اس کی دلآویز آواز سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ پھر چند سکے ڈال کر آگے بڑھ گئے۔لندن کے ثقافتی منظرنامے میں ساؤتھ اینڈ کا علاقہ اپنی رواں دواں مصروفیات اور ہنگامہ خیزی کے باعث بے حد دلچسپ ہے۔ اسی لیے آج شام ہم پروفیسر اقبال کی دن بھر کی علمی مصروفیت کے اختتام پر انہیں ساتھ لیے یہاں چلے آئے تھے۔ سیاحوں ، ریستورانوں ، مے خانوں اور پرانی کتابوں کی دکانوں سے لدی پھندی مگر کشادہ پیدل گزرگاہ پر چلنا شروع کیجیے تو ایک جانب تھیمز دھیرے دھیرے بہتا ہوا ساتھ چلتا ہے۔ دوسری جانب فن و ثقافت کا خزانہ سمیٹے ساوتھ بینک سینٹر ، شیکسپیئر گلوب، ٹیٹ گیلری اور ایسی ہی کئی عمارتوں کے سلسلے ہیں۔ کہیں کہیں تماشہ دکھاتے بسکرز بھی جیسا کہ یہ گلوکار. چلتے چلتے پروف بولے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ہم سب کی بنیادی اور قدرتی شناخت ایک ہی ہے۔ اور وہ یہ کے ہم سب انسان ہیں۔ یہ پہچان ہی ہمیں باہم جوڑتی ہے ۔جب ہم کسی بھی اور تقسیم مثلآ گورے یا رنگدار یا ہندو اور مسلم شناخت کو جزبات کا ایندھن فراہم کرنے لگتے ہیں تو نفرت کی آگ بھڑکنے لگتی ہے۔ جیک نے کہا . لیکن نسلی یا مذہبی بنیاد پر جنگ و جدل تو ہمیشہ سے انسانی تاریخ کا حصّہ رہی ہے۔ پروف بولے۔ یہ درست ہے کے انسانی تاریخ کا ارتقا کشمکش کے بغیر ممکن نہیں ہوتا ۔ لیکن اصل کشمکش اور بنیادی لڑائی مشرق اور مغرب یا ہندو مسلمان کے مابین نہیں ہے۔ یہ ظلم اور بے انصافی کرنے والے طبقے اور مظلوم اور بے انصافی کا شکار ہونے والے طبقے کے درمیان ہے۔ ہر قسم کی دیگر تفریق توجہ ہٹانے کا حربہ ہیں . مفاد پرست ایسی تفریق کو بڑھاوا دیتے ہیں تاکہ عوام طبقاتی جدوجہد کے شعور نہ پہونچ سکیں. برصغیر کا کوی انسان دوست ؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ ایک کو تو میں بچپن سے جانتا ہوں۔ رابندرا ناتھ ٹیگور۔ ایک باضمیر اور سچا تخلیق کار ، دانشور اور ادیب جس نے انسانیت کی حمایت میں اپنی ساری زندگی بسر کی۔ میں نے سنا ہے آپ ان سے مل چکے ہیں؟ زن نے پوچھا۔ پروف بولے. یہ انیس سو چالیس کی بات ہے ۔ میری عمرکوئی سات برس کے لگ بھگ ہوگی ۔ میرے کچھ رشتے داروں کو انگریزوں نے سول نافرمانی کے جرم میں کلکتہ جیل میں قید کر دیا تھا ۔ میں اپنے بزرگوں کے ساتھ ان اسیر رشتہ داروں سے ملنے کے لیے پہلی بار کلکتہ گیا تھا۔ عقیدت اور حاضری کے لئے ہم سب روبی ٹھاکر کے پاس بھی گئے۔ وہ علیل تھے اور بستر تک محدود۔ وہ بہت کم گفتگو کر رہے تھے۔ میری اس عظیم شاعر سے یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی۔کلکتہ کا تحریک آذادی میں کردار؟ میں نے پوچھا۔ بولے. انگریزوں نے پورے بر صغیر پر حکمرانی کا آغاز کلکتہ سے کیا تھا۔ کولونیلزم نے یوں تو بہت سے زخم لگائے ہیں ۔ ان میں سے ایک یہاں پہلے سے موجود قومیت پرستی کو مزید شدت دینا تھا. سفید فام قبضے سے نفرت اور ردعمل کے طور پر رنگدار ثقافتی اور تاریخی شناخت میں جھوٹے سچے فخر اور عظمت کا ابھرنا تو قدرتی بات تھی. لیکن پھر مقامی لوگوں میں بھی مذہبی بنیادوں پر مثلآ ہندو مسلم شکوک و شبہات باقاعدہ نفرت کی شکل اختیار کر گئے. روبی ٹھاکر اپنی قوم کا روشن مستقبل قومیت پرستی میں نہیں بلکہ انسان دوستی میں دیکھتے تھے ۔ وہ کولونیلزم کے صرف اس لیے مخالف نہ تھے کیوں کہ انگریز حاکم ہیں۔ بلکہ اس لیے کے یہ نظام ظلم اور بے انصافی پر مبنی ہے۔ قابل نفرت ہے وہ بے انصافی بھی جو مسلمان یا ہندو جاگیردار مسلمان یا ہندو کسان پر مسلط کرے۔۔۔۔ جاری ہے