Once the rebellion of 1857 was over, the British used violence on an unprecedented scale in order to kill the desire for another uprising
جنگ کے بعد ، سامراج ، گیارہواں انشا ، ویلیوورسٹی ، شارق علی
پروف بولے . لکھنؤ ہیڈکوارٹر کی بغاوت میں تقریبا دو ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ساڑھے چار مہینے کے محاصرے کے بعد برطانوی فوجوں کی کمک آ پہنچی اور انہوں نے بغاوت پر قابو پالیا. پھر انہوں نے ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے اس کی مثال نہیں ملتی . اس دور کے ایک برطانوی کمانڈر کا دعویٰ تھا کہ اس نے بغاوت کے بعد اکیلے چھے ہزار مقامی لوگوں کو قتل کیا. بعض جگہوں پر وہ پہلے باغیوں کو سر میں گولی مار کر قتل کرتے. ان کے بچے ہوئے ساتھیوں کو ان کا خون چاٹنے پر مجبور کرتے اور اس کے بعد ان سے کہتے کہ بھاگو. جب وہ فرار ہونے کے لیے بھاگتے تو گھوڑوں پر بیٹھ کر ان کا تعاقب اس طرح کرتے جیسا کہ جانوروں کا کیا جاتا ہے اور پھر انھیں مار دیتے. بعض اوقات پہلے باغیوں کو دہکتے ہوئے فولاد سے داغا جاتا اور پھر بھاگنے پر مجبور کیا جاتا اور بھاگتے ہوئے باغیوں کو ایک ایک کر کے قتل کر دیا جاتا. مقصد صرف بغاوت کچلنا یا سزا دینا نہیں تھا بلکہ عوام کو سبق سکھانا اور ان کے حوصلوں کو خوف سے پست کر دینا تھا. یہ سکھانا کہ اگر انگریز کی حکومت سے آیندہ بغاوت کی تو پھر ان کا حشر کیا ہوگا. اس ذکر نے ہم سب کو گہری اداسی میں جکڑ لیا . ذرا سے وقفے کے بعد پروف گفتگو جاری رکھتے ہوے بولے . اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے نفسیاتی اثرات بہت گہرے تھے. اب دونوں فریق یعنی حکمران اور عوام اس بات کو جان چکے تھے کہ ان کے درمیان اعتماد کا نہیں بلکہ شک اور سنگدلانہ ظلم پر مبنی حکمرانی اور دلوں میں بغاوت اور خوف لئے محکومیت کا رشتہ ہے. اب وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص نہ تھے لیکن بحالت مجبوری اس تعلق کو جاری رکھے ہوئے تھے. انہیں معلوم تھا کہ یہ نازک توازن کسی بھی حادثے یا واقعے کی بنیاد پر لاوے کی طرح پھٹ سکتا ہے۔ رمز نے کہا . یہ تو بڑی مشکل صورت حال ہو گی ؟ پروف بولے. بالکل . امن بحال ہوا تو برطانوی طرز عمل میں سختی آتی چلی گئی اور انہوں نے اپنی حکمرانی کو ثابت کرنے کے لئے نئے طریقے ڈھونڈنے شروع کیے ۔ انہوں نے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں مثلا دہلی، لکھنؤ ، کلکتہ کے بڑے بڑے میدانوں میں عوامی جشن منعقد کرنے شروع کیے. ان جلسوں کو دربار کہا جاتا تھا جو مقامی لفظ ہے. دربار جہاں رعایا اور بادشاہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں. انگریزوں نے ایسے درباری جلسوں میں اپنی شان و شوکت اور طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کیا تاکہ عوام پر اپنی دھاک بٹھائی جا سکے . لندن کی تھیٹریکل کمپنیوں سے خریدے گئے فینسی ڈریس نما شاندار چوغے پہن کر انڈیا کا حکمران اور ملکہ کا نمائندہ یعنی وائسرائے بالکل کسی بادشاہ کی حیثیت سے ان درباروں اورجشن میں شریک ہوتا ۔ ان درباروں میں ملکہ کو غیر معمولی شخصیت اور کردار بنا کر پیش کیا جاتا. اس کی سلور جوبلی کے موقع پر تو دنیا بھر سے بہت سے مقامی اہلکاروں اور معززین شہر کو لندن کی سیر کروائی گئی تاکے وہ اپنے علاقوں میں لوٹ کر ملکہ کا اقبال بلند کر سکیں. سوفی بولی . سامراجیت انگریزوں پر بھی ضرور اثر انداز ہوی ہو گی ؟ پروف بولے . یہ سچ ہے کہ ظلم ظالم اور مظلوم دونوں کو بے حال کر دیتا ہے . ذرا دیر کو ان برطانوی نوجوانوں کے بارے میں سوچو کہ جو اپنے ملک اور ثقافت سے ہزاروں میل دور اجنبی علاقوں میں جنگی بحری جہازوں کے ذریعے پہنچتے تھے. ان کا کام مقامی لوگوں پر غیر انسانی ظلم کرنا یا انھیں ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر ایسی تعلیم و تربیت دینا ہوتا تھا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر ملکہ برطانیہ کے راج کو دور دور تک پہنچانے میں ان کے مددگار بن جائیں. وہ مقامی لوگوں کو قائل کر لینے میں اس قدر کامیاب تھے کہ وہ نہ صرف تاج برطانیہ کے ہر حکم کی تعمیل کرتے بلکے اکثر اوقات اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیتے تھے . ایسی سلطنت اور ملکہ کے لئے جسے انہوں نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا ……. جاری ہے