Janissaries were an elite corps of slaves, loyal to Ottoman Sultans, made up of kidnapped young Christian boys hardened by strict military training
جاں نثاری ، دنیا گر ، انشے سیریل ، پانچواں انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
نیلی مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی اورپیدل ہی توپ کاپی میوزیم کی سمت چلے. کوئی بیس منٹ کی مسافت ہو گی . سنہری دھوپ میں سرخ اینٹوں سے بنے پیدل راستوں پر چلتے ہوے ہاگیا صوفیاء کے عظیم گرجا گھر کے پاس سے گزرے . راستے بھر کنارے کے ریستورانوں میں دنیا بھر سے آے ہوے سیاحوں کا رش دیکھا . پروف استنبول کا ذکر کر رہے تھے . بولے . باسفورس کے گہرے نیلے پانیوں کے ساحل پر سرسبز و شاداب پہاڑی ہے جس پر جابجا خوبصورت درخت اور پھولوں کے قطعات میں بکھری بہت سی تاریخی عمارتوں میں محفوظ نوادرات پر مشتمل ہے توپ کاپی میوزیم. سلطنت عثمانیہ کے دور میں یہ محل ہوا کرتا تھا. ان گزرگاہوں پر چلتے جانے کتنی ہی کہانیوں اور رازوں کی سرگوشیاں سنائی دیں . سلطانوں کی شوکت ، درباریوں کی سازشیں، جانثاروں کے کارنامے . پھر سلیمان اور ابراہیم کی کی رفاقت یاد آئ . دو بچپن کے دوست ، ایک سلطان دوسرا جاں نثاری غلام ..جاں نثاری غلام ؟ سوفی نے پوچھا. بولے . اس زمانے میں عثمانی سلطنت مفتوح یورپی عیسائی بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر جاں نثاری بنا لیتی تھی . یعنی ایسے اعلی تربیت یافتہ فوجی غلام جو سلطان کے لئے جان ہتھیلی پر لئے پھرتے تھے . انہیں عزت و احترام ، ماہانہ تنخواہ ، پنشن، تجارت کی آزادی اور ان کے خاندان کو تحفظ حاصل ہوتا تھا . سلطنت عثمانیہ کی یورپی وسعت اور استحکام میں دو صدیوں تک ان جاں نثاروں نے اہم کردار ادا کیا ہے . پراگلی ابراہیم وینس سے گرفتار شدہ جاں نثاری غلام تھا جسے توپ کاپی محل میں عثمانی سلطنت کے سب سے ممتاز بادشاہ سلیمان دی مگنفیسنٹ کی دوستی کا موقع ملا . ترکی کے شہر ترابزون میں پیدا ہونے والے سلیمان کا باپ سلیم اول عثمانی حکمران تھا. علمی اور جنگی تربیت اسی محل میں ہم عمر جاں نثاری دوست پارگلی ابراھیم کے ساتھ مکمل کی . وقت کے بہترین عالموں نے تاریخ ، ریاضی ، ادب، فلسفہ اور جنگی مہارت سکھائی. کم عمری میں ایک صوبے کا گورنر بنا. سیاسی داؤ پیچ اور قانونی نکات کے بارے میں عملی علم حاصل کیا . دور تک پھیلی عثمانی سلطنت میں مختلف ثقافتوں ، زبانوں اور رسم و رواج کو سمجھنے کا موقع ملا. والد کا انتقال ھوا تو صرف چھبیس سال کی عمر میں سلطان بنا . اس نے والد کے وزیر کو برطرف کر کے جاں نثاری دوست پارگلی ابراھیم کو اپنا وزیر بنا لیا. کچھ تفصیل عثمانی سلطنت کی ؟ رمز نے کہا . بولے . بارہ سو ننانوے میں اناطولیہ کے قبائلی سردار عثمان اول کی قائم کردہ یہ سلطنت انیس سو تیئیس تک قائم رہی. مرکز ترکی تھا اور میڈیٹرینین کے ساتھ مشرقی اور جنوبی علاقوں میں بسے بہت سے ممالک . سن چودہ سو سے سولہ سو تک انہیں عروج حاصل رہا اور مشرق وسطہ ، مغربی ایشیا ، شمالی افریقہ کے بہت سے ممالک کے علاوہ یورپ میں یونان، ہنگری ،رومانیہ پر تسلط اور ویانا پر حملے کارناموں میں شامل تھے. سلطنت عثمانیہ کا سب سے طاقت ور حکمران سلیمان دی مگنی فسینٹ تھا. . سلطنت کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ مذہبی رواداری تھی. حکمران خود مسلمان تھےلیکن قبضہ کرتے کے بعد مفتوح قوموں کو مکمل آزادی حاصل ہوتی تھی کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق عبادات اور معمولات جاری رکھیں. ایک دور عہد ٹیولپ کہلاتا ہے جس میں جنگی فتوحات نہیں بلکے طویل حالت امن میں ادب اور ثقافت کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی تھی . ٹیولپ کا پھول ترکی ثقافت میں حسن مکمل کی علامت سمجھا جاتا ہے. سولہویں صدی کے اختتام پر قیادت کی نااہلی کی وجہ سے یہ سلطنت کمزور پڑنا شروع ہوی اور ایک بیمار سلطنت بن کر انیس سو تیئیس میں پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر اس کا مکمل خاتمہ ہوگیا. جدید ترکی کا بانی تو انقلابی کمال اتاترک ہے . اور سلیمان ؟ میں نے پوچھا . بولے . سلیمان کے چھیالیس سالہ اقتدار میں سلطنت کو بہت وسعت ملی . اس نے اپنے بحری بیڑ ے اس قدر مضبوط بناے کے پورے میڈیٹرینین پر بالادستی قائم ہوگئی . وہ نہ صرف عظیم سپہ سالار تھا بلکہ بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا مالک بھی. اس نے سلطنت کو معاشی اور قانونی لحاظ سے اپنے عروج پر پہنچایا. ٹیکس کا بہترین نظام قائم کیا. اعلی تعلیمی ادارے عوام کو مہیا کیے . وہ خود ایک شاعر اور لکھاری تھا . ماں کی طرف سے سلسلہ نسب چنگیز خان سے ملتا تھا جو اس کی بھرپور جنگی صلاحیتوں کو جواز فراہم کرتا ہے. یورپ کی حکمرانی کے دوران وہ عوام میں بے حد مقبول رہا . یورپی اسے میگنی فسنٹ اور ترک قانونی کے نام سے یاد کرتے ہیں کیونکے اس نے سلطنت کو مفید قانونی فریم ورک فراہم کیا تھا ………. جاری ہے