Skip to content
Home » Blog » بنگلہ دیش کا سفر: برنس کانفرنس 2011

بنگلہ دیش کا سفر: برنس کانفرنس 2011

  • by

بنگلہ دیش کا سفر: برنس کانفرنس 2011

پہلی قسط

شارق علی
ویلیوورسٹی

یہ نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو کی ایک روشن صبح تھی، اپریل 2011۔ ہم تینوں، یعنی میں، ٹام اور روتھ این، اپنے سامان کے ساتھ تری بھون انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی سکیورٹی سے گزرتے ہوئے مرکزی عمارت میں داخل ہوئے۔ ہمارے میزبانوں نے ہمیں کچھ دیر پہلے ہی رخصت کیا تھا۔ ہم چیک ان کاؤنٹر پر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ جی ایم جی ایئرلائنز، جو بنگلہ دیش کی ایک نجی ایئرلائن ہے، کی پرواز چار گھنٹے لیٹ ہے۔

یوں تو ہمارے مشترکہ سفر کا آغاز لندن ہیتھرو سے چار دن پہلے ہوا تھا، لیکن اب ہم کٹھمنڈو میں برنس سے متعلق کلینیکل اسٹاف کو تین روزہ تربیت دینے کے بعد بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ہونے والی ساؤتھ ایسٹ ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔

ٹام، جو ویلز سے تعلق رکھنے والا برنس اینڈ پلاسٹک سرجن ہے، آج میرے ساتھ اس کانفرنس کے لیے سفر کر رہا تھا۔ ہم دونوں نے شوبھا، جو کہ انڈیا سے تعلق رکھنے والی برنس اینڈ پلاسٹک سرجن ہے، کے ساتھ مل کر 2007 میں ایک انٹرنیشنل این جی او، انٹربرنس (International Network for Training, Education, and Research in Burns) قائم کی تھی۔ ہمارا مشترکہ دشمن یعنی برنس نہ مذہب دیکھتا ہے، نہ قومیت اور نہ سرحدیں، اسی لیے انٹربرنس میں بھی ہم نے ایسی کسی تفریق کو جگہ نہیں دی تاکہ ہم سب مل کر اس مشترکہ انسانی مسئلے سے عالمی سطح پر نمٹ سکیں۔ اس وقت تک ہم پاکستان، انڈیا، نیپال، یوگنڈا، بنگلہ دیش اور برطانیہ میں انٹر برنس کے کئی پراجیکٹ کامیابی سے مکمل کر چکے تھے۔

روتھ این، جو لندن کے ایک ہسپتال کی تجربہ کار برنس فزیوتھراپسٹ اور انٹربرنس کی ایڈمنسٹریٹر بھی ہے، ہمارے ہمراہ تھی۔ فلائٹ میں تاخیر کا سن کر ہم نے فیصلہ کیا کہ چیک ان ابھی نہ کروایا جائے بلکہ بیمان بنگلہ دیش ایئرلائن کے دفتر میں جا کر ذرا پہلے کی فلائٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہم نے لندن میں مقیم اپنے ٹریول ایجنٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی۔

اسی دوران، روتھ این نے طبیعت کی خرابی اور متلی کی شکایت کی اور قریبی صوفے پر بیٹھ گئی۔ ہمیں ہوٹل میں ناشتے کے دوران اس کی فوڈ پوائزننگ کی خبر تو ملی تھی، لیکن وہ کسی نہ کسی طرح سفر کی مصروفیت میں شامل رہی۔ مزید چار گھنٹے انتظار کا سن کر شاید اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔

ایئرپورٹ اسٹاف کی مدد سے ہم نے اسے ایئرپورٹ کلینک پہنچایا۔ وہاں موجود نیپالی ڈاکٹر نے روتھ این کا استقبال بڑی گرم جوشی سے کیا، مگر ہم دونوں کو کچھ مشکوک اور ناراض نظروں سے دیکھا۔ مختصر معائنے کے بعد، اس نے کہا کہ روتھ کو ڈی ہائیڈریشن ہے اور دو گھنٹے ڈرپ لگوانے کے لیے اس کا کلینک میں قیام کرنا ضروری ہے۔

ہم نے روتھ کو کلینک میں چھوڑا اور ایئرپورٹ لاؤنج میں چیک ان کروانے کے بعد فلائٹ کا انتظار کرنے لگے۔ جب ڈرپ ختم ہوئی، تو روتھ بھی دوبارہ ہمارے ساتھ ویٹنگ لاؤنج میں آبیٹھی۔ اب وہ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ ہم نے اسے چھیڑا کہ کہیں اس نیپالی ڈاکٹر نے اسے کوئی چھلا نشانی تو نہیں دی۔ اس نے پر اعتماد مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ “یہ راز کی باتیں ہیں، راز ہی رہیں تو اچھا ہے۔”

اس طویل انتظار کے بعد آخر کار ہماری فلائٹ کی روانگی کا اعلان ہوا۔ ہم سکیورٹی اور دیگر کاروائیوں سے فارغ ہوکر جہاز میں داخل ہوئے تو اسے مسافروں سے کھچا کھچ بھرا پایا۔ یہ زیادہ تر بنگال کے محنت کش تھے جو دوبئی اور دوہا میں مختلف ملازمتیں کرتے ہیں اور اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے براستہ کھٹمنڈو واپس ڈھاکہ جا رہے تھے۔

ہم تینوں اس رش سے پریشان کھڑے تھے کہ جہاز کے چیف اسٹیوارڈ نے ہمیں فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ میں اپ گریڈ کرنے کی خوشگوار دعوت دی، جہاں ہمارے سوا کوئی دوسرا مسافر موجود نہ تھا۔ جہاز نے کچھ دیر بعد ٹیکسی کرنا شروع کیا اور پھر ہم ڈھاکہ کی سمت روانہ ہو گئے۔…. جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *