Antoni Gaudi was convinced that one day his architectural masterpiece would be the symbol of Barcelona, and he was right
انوکھی عبادتگاہ ، چوتھا انشاء ، بارسلونا ایک جھلک ، انشے سفرنامہ ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
سگراڈا کے میٹرو اسٹیشن سے باہر آتے ہی دونوں جانب مشہور زمانہ کیتھیڈرل کو دیکھنے کی کوشش کی اور ناکام ہوئے۔ پھر جیسے ہی مڑ کر بالکل پیچھے دیکھا تو پیلے پتھروں سے بنی کسی چھپے ہوے ڈائنوسار جیسی اونچی اور بے حد منفرد عمارت کی اچانک موجودگی نے حیرت زدہ کر دیا. وہ کسی عجوبے سے کم نہ تھی . دیدہ زیب اور باوقار . کیتھیڈرل کا تقریباً آدھا حصہ تو پیلے قدیم پتھروں سے بنا تھا. بقیہ حصّے کا ڈیزائن بھی ویسا ہی لیکن نسبتاً نئے پتھروں سے جدید طرز میں تعمیر شدہ اور کچھ حصّہ ابھی تک زیر تعمیر تھا . عمارت بلا شبہ جدید اور قدیم تعمیراتی کمال کا حسین امتزاج تھی . ذہن پر زور ڈالنے کے باوجود مجھے اس طرز کی کوئی دوسری عمارت یاد نہ آ سکی . پوری عبادتگاہ ایک بلند اور تکونے احرام کی مانند تھی جس میں سامنے کے رخ ایک سنگلاخ منقش اونچے سے محرابی دروازے کے ساتھ چاربلند مینار اور ارد گرد گول گھومتے مختصر راہداریوں جیسے عمارتی سلسلے جو آپس میں جڑے ہوئے تھے . تعمیر میں جابجا مذہبی نوعیت کی علامتیں اور مجسمے شامل کیے گئے تھے جس سے پورا تعمیراتی ماحول عیسائیت سے عقیدتمندی کا بھرپور اظہار بن گیا تھا . اس کتھیڈرل کے خالق انٹونیو گاوڈی کی عقیدت کا اندازہ تو اس بات سے لگا لیجیے کے وہ اپنے اسی شاہکار میں مدفون ہے . سو برس سے زیادہ عرصے سے زیر تعمیر نوکیلے میناروں والی اس عمارت کے تین واضح رخ دکھائی دے رہے تھے ۔ ایک قدیم دوسرا جدید اور تیسرا زیر تعمیر . گرجا گھر کے چاروں طرف دنیا بھر سے آے اور مقامی عقیدتمندوں کا جمگھٹا تھا جو بڑی عقیدت اور تعریفی نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے . عمارت کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھ چکے اور تھکن محسوس ہوئی تو دروازے کے عین سامنے چھوٹے سے باغ میں پڑی ایک بینچ پر بیٹھ گئے. میں سوچنے لگا . آٹھویں صدی عیسوی کے شروع سے لے کر پندرہویں صدی کے آخر تک کیٹلونیا پر تو نہیں لیکن موجودہ سپین اور پرتگال کے خاصے بڑے علاقے پر جو آئبیرین پینینسلا یا اندلس کہلاتا تھا مسلمانوں کی حکومت رہی ہے ۔ وہ مسلمان روشن خیالی اور عروج کا زمانہ تھا اور اس قبضے سے بلا شبہ اس دور کے تاریک یورپ میں ترقی کی نئی راہیں ہموار ہوئیں تھیں ۔ پہلی فتح تو بنو امیہ کے زمانے میں سات سو گیارہ صدی عیسوی میں طارق بن زیاد نے حاصل کی تھی جب وہ شمالی افریقہ کہ کے ساحل سے سمندر عبور کرکے موجودہ جبرالٹر کے مقام پر اترا تھا . یہ فتوحات عباسیوں کے دور میں بھی جاری رہیں اور مسلمان فرانس کی سرحدوں تک جا پہنچے تھے لیکن وہاں فوجی مزاحمت کی وجہ سے وہ مزید پیش قدمی نہ کرسکے. ان کی عملداری اندلس تک محدود رہی جس کا مرکز قرطبہ تھا . تقریباً سات سو برس اس خطّے میں قیام کے باوجود موجودہ اسپین کی ثقافت پر مسلمان کوئی واضح مثبت اثر چھوڑنے میں ناکام رہے ہیں . ایک بڑی وجہ تو قرطبہ پر عیسائی فتح کے بعد تمام مسلمانوں کو زبردستی عیسای بنا لینا تھی . جو چند باقی بچے وہ حکومتی جبر کی تاب نہ لا سکے . آج بارسلونا میں مذہبی عقیدے کے لحاظ سے تیسری بڑی آبادی مسلمانوں کی ہے لیکن یہاں کوئی بھی قابل ذکر بڑی مسجد موجود نہیں. جس باغ میں ہم بیٹھے تھے اس کے بلکل سامنے ساکت پانی سے لبریز ایک حوض تھا جسے خوشنما درختوں اور جھاڑیوں نے گھیرا ہوا تھا اور ان میں رنگارنگ پھول کھلے تھے . ہم کچھ دیر وہاں بیٹھے سیاحوں کو دیکھتے رہے جو اندر جانے والوں کی لمبی قطار سے ہماری ہی طرح مایوس دکھائی دیتے تھے . پھر فیصلہ کیا گیا کہ ہم میں نہ اتنا صبر ہے اور نہ وقت کہ ٹکٹ خرید کر اندر جانے والوں کی اس لائن کا حصّہ بنیں ، یہی سوچ کر کہ اب یہاں مزید وقت گزارے بغیر لا رمبلا کی جانب روانہ ہوا جاے . ہم نے قدم قریبی میٹرو سٹشن کی جانب بڑھا دیے ……….. جاری ہے