ادب کی بقا: روایتی اصناف یا جدید تقاضے؟
شارق علی
ویلیوورسٹی
زمانہ بدل چکا ہے، لیکن کیا اردو ادب بھی بدل رہا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر غور کرنا ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو ادب کی بقا اور ترقی کا خواہاں ہے۔ روایتی ادبی اصناف جیسے ناول، افسانہ اور طویل مضامین، جو کبھی علم و فن کے میدان میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے، آج کے دور میں اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، سوشل میڈیا کی دنیا میں مختصر، تیز رفتار اور براہِ راست اثر ڈالنے والی تحریریں قارئین کی توجہ حاصل کر رہی ہیں۔ اگر ادب کو زندہ رہنا ہے تو اسے ان جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔ ورنہ، وہ آہستہ آہستہ ماضی کا قصہ بنتا چلا جائے گا۔
روایتی ادب کا زوال: وجوہات اور نتائج
اردو کے بیشتر لکھنے والے شاہکار تخلیق کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کا قاری کون ہے، وہ کیا پڑھنا چاہتا ہے اور کس طرز کی تحریریں اس تک زیادہ مؤثر انداز میں پہنچ سکتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ قاری جسے سوشل میڈیا کے مختصر اور تیز رفتار مواد کی عادت پڑ چکی ہے، وہ لمبی اور پیچیدہ تحریروں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ پھر یہی لکھاری عوام کی “کتابوں سے دوری” کا شکوہ کرتے رہ جاتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کا قاری صرف تفریح نہیں چاہتا، بلکہ وہ اپنی معلومات میں فوری اضافہ چاہتا ہے۔ اگر کسی تحریر میں مختصر وقت میں زیادہ سے زیادہ علم یا تفریح نہ ہو، تو وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ رجحان سوشل میڈیا، بلاگز اور ویڈیوز کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے، جہاں ہر چیز چند سیکنڈز یا چند سطور میں پیش کی جاتی ہے۔
ادب کے لیے جدید دور کے تقاضے
اگر لکھاری چاہتے ہیں کہ ان کی تحریریں زیادہ لوگوں تک پہنچیں، تو انہیں چند اہم نکات کو سمجھنا ہوگا:
مختصر مگر جامع تحریر:
آج کا قاری لمبی تحریریں پڑھنے کے بجائے مختصر اور مؤثر پیغامات پسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹوئٹر تھریڈز، مختصر بلاگز اور وائرل تحریریں زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ روایتی اصناف جیسے افسانہ اور ناول کو بھی مختصر، قسط وار یا جدید فارمیٹس میں پیش کرنا ہوگا۔
ڈیجیٹل فارمیٹ اور ملٹی میڈیا کا استعمال:
تحریر کو صرف کتابوں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے ویڈیوز، پوڈکاسٹ، آڈیو بکس اور تصویری کہانیوں کے ذریعے بھی پیش کرنا ضروری ہے۔ آج کل کئی مشہور ناول ویب سیرلز یا ویڈیو بلاگز میں تبدیل ہو رہے ہیں، اور یہی مستقبل کا راستہ ہے۔
سوشل میڈیا کی طاقت سے فائدہ اٹھانا:
فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارمز پر اگر تحریریں دلچسپ، مختصر اور قاری کے مزاج کے مطابق پیش کی جائیں، تو وہ زیادہ مقبول ہو سکتی ہیں۔ لوگ ناول خرید کر پڑھنے سے زیادہ، مختصر کہانیاں یا دلچسپ تحریری جھلکیاں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
موضوعات کی جدت:
آج کے قاری کو وہ کہانیاں زیادہ متوجہ کرتی ہیں جو جدید مسائل، سوشل میڈیا، مصنوعی ذہانت، خلائی تسخیر، ماحولیاتی تبدیلی، اور انسانی نفسیات جیسے موضوعات پر لکھی جائیں۔ اگر اردو ادب پرانے روایتی موضوعات میں ہی پھنسا رہے گا، تو وہ اپنی کشش کھو بیٹھے گا۔
انٹریکٹو مواد اور قارئین سے براہ راست تعلق:
سوشل میڈیا نے لکھاریوں کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنے قارئین سے براہ راست جڑ سکیں۔ آج کا قاری ایک جامد کتاب کے بجائے ایک براہ راست اور انٹریکٹو تجربہ چاہتا ہے۔ اگر لکھاری اپنی تحریروں میں قارئین کے لیے سوالات، تبصرے، یا بحث کے دروازے کھول دیں، تو ان کا اثر زیادہ ہوگا۔
کیا روایتی ادب مکمل طور پر ختم ہو جائے گا؟
یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ روایتی اصناف مکمل طور پر ختم ہو جائیں گی۔ دنیا میں آج بھی اچھی کتابیں لکھی اور پڑھی جا رہی ہیں، لیکن ان کا حلقہ محدود ہو چکا ہے۔ ادب کی مستقبل میں بقا اسی میں ہے کہ وہ جدید ذرائع سے ہم آہنگ ہو۔ اگر اردو کے لکھاری چاہتے ہیں کہ ان کا کام زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچے، تو انہیں روایتی سوچ سے باہر آنا ہوگا اور جدید طرزِ تحریر کو اپنانا ہوگا۔
آخری بات
وقت کے ساتھ ساتھ ادب کی شکل و صورت بدلتی رہتی ہے۔ پہلے کہانیاں زبانی سنائی جاتی تھیں، پھر کتابی شکل میں آئیں، اور اب وہ ڈیجیٹل اسکرینز پر منتقل ہو رہی ہیں۔ جو لکھاری اس تبدیلی کو اپنائے گا، وہی کامیاب ہوگا۔ ادب کی بقا کا انحصار اب صرف شاہکار تخلیق کرنے پر نہیں، بلکہ قاری کی نفسیات اور موجودہ دور کی ضروریات کو سمجھنے پر ہے۔ اگر لکھاری قاری کے ساتھ بہتر تعلق قائم کرے، اس کی ضروریات اور پسند کو سمجھے، اور جدید ذرائع سے تحریروں کو پیش کرے، تو اردو ادب کا مستقبل روشن ہے۔ ورنہ، یہ ایک ایسا چراغ بن سکتا ہے جو اپنی روشنی لیے خود ہی تنہا رہ جائے گا۔