Skip to content
Home » Blog » آسٹریا کہانی : البرٹینا میوزیم اور مارکس اوریلیس

آسٹریا کہانی : البرٹینا میوزیم اور مارکس اوریلیس

  • by

ساتویں قسط

تحریر: شارق علی
ویلیو ورسٹی

ہم البرٹینا میوزیم کے سامنے اس جگہ کا مشاہدہ کر چکے تھے جہاں سے ہمیں کل اپنے ڈے ٹور پر روانہ ہونے کے لیے کوچ میں سوار ہونا تھا۔ پھر ہم البرٹینا میوزیم کے اندر داخل ہوئے۔ یہ عظیم الشان عمارت ابتدا میں ہیبس برگ سلطنت کے ایک شاہی محل کے طور پر تعمیر کی گئی تھی، مگر آج یہ ویانا کے اہم ترین عجائب گھروں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی باروک اور نیو کلاسیکل طرزِ تعمیر، ماضی کی عظمت کو برقرار رکھتے ہوئے، اسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بناتی ہے۔

میوزیم میں داخل ہونے کے لیے ایک طویل ریمپ عبور کرنا پڑتا ہے، جس کے دونوں جانب طاقتور گھوڑوں کو قابو کرتے شہسواروں کے مجسمے نصب ہیں—یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تاریخ کے ایک جیتے جاگتے منظر کو پتھریلے مجسموں میں قید کر دیا گیا ہو۔

جیسے ہی ہم مرکزی ہال میں داخل ہوئے، دنیا کے چند عظیم ترین فنکاروں کے شاہکار ہماری نگاہوں کا استقبال کرنے لگے—لیونارڈو ڈاونچی، رافیل، ریمبرانٹ، پکاسو—اور سب سے بڑھ کر، البریخت ڈورر کی مشہور پینٹنگ “ینگ ہیر” (Young Hare)، جس میں خرگوش کی باریک ترین تفصیلات اس مہارت سے پیش کی گئی ہیں کہ دیکھنے والا حیرت میں ڈوب جائے۔

البرٹینا کے مرکزی ہال کے سامنے کی گیلری سے ویانا شہر کا شاندار منظر دکھائی دیتا ہے۔ ہم دیر تک وہاں کھڑے شہر کی چہل پہل دیکھتے رہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ وہی مقام، جہاں آج ہم فنونِ لطیفہ کے نادر نمونے دیکھ رہے ہیں، تقریباً دو ہزار سال قبل رومی سلطنت کی ایک سرحدی چوکی کے زیرِ کنٹرول تھا۔ ویانا کے قریب واقع اس علاقے کو وینڈوبونا کہا جاتا تھا، اور یہی وہ جگہ تھی جہاں مارکس اوریلیس جیسے عظیم فلسفی بادشاہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے۔

موجودہ ویانا کے مائیکلر پلاٹز کے علاقے کے قریب آج بھی رومی کھنڈرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ میں نے اپنی چشمِ تصور سے دیکھا کہ انہی گلیوں میں گھومتے ہوئے مارکس اوریلیس اپنی مشہور تصنیف “میڈیٹیشنز” (Meditations) کے مندرجات پر غور کر رہا ہے۔

مارکس اوریلیس (121-180 عیسوی) مشہور فلسفی بادشاہ تھا، جسے رومی سلطنت کا سب سے دانا حکمران کہا جاتا ہے۔ وہ اسٹوئک فلسفے کا پیروکار تھا، جس کے سنہری اصول بردباری، تقدیر کی قبولیت، اور فرض کی ادائیگی پر مبنی ہیں۔ اپنی کتاب “میڈیٹیشنز” میں اس نے صبر، خودشناسی، اور زندگی کی ناپائیداری جیسے موضوعات پر گہرے خیالات رقم کیے ہیں۔

170 عیسوی میں، جب جرمن قبائل کے حملے شدت اختیار کر گئے، تو مارکس اوریلیس نے وینڈوبونا (موجودہ ویانا کے قریب) میں قیام کیا اور وہیں سے جنگ کی قیادت کی۔ یہیں اس نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے اور 180 عیسوی میں وفات پائی۔

مارکس اوریلیس کی موجودگی نے وینڈوبونا کو تاریخی اہمیت دی۔ یہ وہ مقام تھا جہاں ایک فلسفی بادشاہ نے جنگ اور دانشوری کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کی۔

وقت بھی کیسے اپنی چال بدلتا ہے! وہی علاقہ جو کبھی رومی فوجی قلعہ تھا، بعد میں ہیبس برگ شاہی محل بنا، اور آج وہاں فنونِ لطیفہ کی ایک عظیم الشان دنیا آباد ہے۔ آج میں یہاں کھڑا ماضی کی بازگشت سن رہا ہوں، کل کوئی اور یہاں کھڑا ایک نئی دنیا کا منظر دیکھ رہا ہوگا اور ایک نئی کہانی رقم کرے گا۔

(جاری ہے…)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *