Skip to content
Home » Blog » آئ بسنت، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، تینتیسواں انشا Basant Kite Festival, Grandpa & me, Urdu/Hindi Pod cast, Episode 33

آئ بسنت، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، تینتیسواں انشا Basant Kite Festival, Grandpa & me, Urdu/Hindi Pod cast, Episode 33

Basant marks the commencement of spring season. loved and celebrated by people of all faiths across the geographical boundaries of Indo Pak. Enjoy the story of peace and love!

This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.

Listen, read, reflect and enjoy!

آئ بسنت، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل،  تینتیسواں انشا
سرسوں کے کھیت سے جڑے سبز میدان میں ھم عارضی ٹینٹ لگا چکے تھے. صبح  کی نرم دھوپ اور تازہ ہوا میں ناشتے کا انتظار تھا. ٹینٹ گاجر کے حلوے اور زعفرانی زردے کی خوشبو سے مہک رہا تھا. نصیبن بوا کڑاہی سے گرم پوریاں اتار کر آلو ترکاری اور حلوے کی ڈ شوں کے پاس پڑی چنگیرمیں رکھتی جاتیں. میں پیلی ٹی شرٹ  اور بابل سفید کرتے پر سرسوں رنگ لاچا پہنے دن چڑھنے کے بے چینی سے منتظر تھے. دادا جی اور انکل زرد پگڑیاں پہنے ٹینٹ میں داخل ھوۓ . پیچھے رنگین لہریوں پر ہاتھ کے کام والا ڈریس اور دونوں ہاتھوں میں پیلی چوڑیاں پہنے یانی آپا تھیں. انکل نے کہا. بھئی ناشتے سے پہلے نیرنگ اباد سے منگوائی پتنگیں دیکھ  لو. باہر آئے تو چارپائی پر رنگا رنگ پتنگیں اور چرخیوں میں لپٹی ڈور، جیسے پھولوں سے سجا گل دستہ . میری اور بابل کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا. میں نے پوچھا.  دادا جی پہلی پتنگ کب اڑائی گئی؟ کہنے لگے. ریشم اور بانس سے بنی پہلی پتنگ غالباً تین ہزار سال پہلے چین میں اڑائی گئی. پھر یہ جاپان اور دیگر ایشیائی ملکوں تک پہنچی . پہلے تو پتنگیں اڑانا اچھی فصل اور بلا ٹالنے کی مذہبی رسومات کا حصّہ تھیں. پھر عوام میں ہر دل عزیز ہو کر سال بھر جاری رہنے والا کھیل بن گئیں. سائنسدانوں نے بھی ان سے خوب کام لئے. موسم کی کیفیات، پرواز کے اصول، اور لیو نارڈوڈاونسی نے اسے دریا کی چوڑائی ناپنے کے لئے استعمال کیا. ١٩٠١ میں مارکونی نے بحر اقیانوس  عبور کرنے والا پہلا ٹیلیگرافیک پیغام پتنگ اڑا کر بھیجا تھا. انکل بولے. کیوں نہ ناشتہ کر لیا جائے . پھر مزے دار ناشتے سے پورا انصاف ہوا. انکل نے کہا. آج سے ننانویں سال پہلے رنجیت سنگھ اور ملکہ مورن سرکار کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اچھی فصل اور آمد بہار کا یہ جشن مذہب اور عقیدوں کی کھینچی لکیروں سے بے نیاز باد نسیم کے جھونکوں کی طرح ہر سمت میں پھیل جائے گا. پتنگیں آسمانوں میں اور ڈھول کی تھاپ پر انسانی جذبے دھرتی پر رقص کریں گے. درختوں پر ڈ لے جھولوں میں لڑکیاں اور فضاؤں میں نغمے ہلکورے لیں گے. ہر طرف قہقہے اور بو کا ٹا کا شور ہو گا. دادا جی بولے. یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ گنجان شہروں کی چھتوں پر بد احتیاطی اور مہلک ڈور کا استعمال ہر سال بہت سی بے گناہ جانیں لے لیتا ہے. اس افسوسناک صورت حال پر قابو پانا حکومتی ذمے داری ہے. بسنت جیسی عوامی امنگوں پر پابندی اس کا حل نہیں. پھر ہم پتنگیں لئے میدان کی سمت بڑھے تومیں نے کہا. کتنے مزے کی بات ہے کہ عین اسی وقت لاہور، دہلی، امرتسر اور قصور کا آسمان پتنگوں سے ایک ساتھ رنگین ہو گا. یانی آپا بولیں. خار دار تاروں سے بنی سرحد اس بار بھی عوام کے دلوں میں بسی محہت اور بہار میں کھلنے والے پھولوں سے ہار جائیں گی……جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *