Skip to content
Home » Blog » یہودی محلہ، اندلس کہانی، ساتویں قسط

یہودی محلہ، اندلس کہانی، ساتویں قسط

  • by

یہودی محلہ، اندلس کہانی، ساتویں قسط

✍️ شارق علی
ویلیوورسٹی

ہم سب سیاح، تیز دھوپ سے بچتے ہوئے، ایک پرانی دیوار کی چھاؤں میں آ کھڑے ہوئے۔ ہمارے گائیڈ پیڈرو نے کہا:

“اب ہم اندلس کے سنہری دور کے اُس مشہور محلے ‘یہودی کوارٹر’ (Jewish Quarter) میں داخل ہو رہے ہیں، جہاں صدیوں پہلے علم و ادب، فلسفہ اور مذہبیات کا فکری سنگم آباد تھا۔
یہ محلہ اُس رواداری کی زندہ مثال ہے جو اندلس کے درخشاں عہد میں قائم تھی۔”

پھر ہم قدم بہ قدم ان گلیوں میں داخل ہوئے۔

اندر کا منظر سادہ اور دلکش تھا: سفید چونے سے رنگی گھروں کی دیواریں، نیلے لکڑی کے دروازے، کھڑکیوں پر لٹکتے تازہ پھولوں سے سجے خوش آمدیدی گملے۔ یہ سب کچھ قرطبہ کی مخصوص گلیوں کا مانوس منظر پیش کر رہے تھے۔ مگر جیسے جیسے ہم آگے بڑھے، ایسا محسوس ہوا گویا یہ تنگ و پیچیدہ گلیاں کسی قدیم کتاب کے اوراق ہوں، جن پر وقت نے اپنی مہریں ثبت کی ہوں۔ سنگی فرش پر قدموں کی چاپ سنائی دیتی تو لگتا جیسے ماضی کی دھیمی آہٹ ہو۔

راستے میں چھوٹی چھوٹی دکانیں دکھائی دیں جن میں ہاتھ سے بنی یہودی اشیاء، نایاب کتابیں، اور موسیقی کے آلات سجے تھے۔ کچھ دیواروں پر عبرانی زبان میں کندہ عبارتیں نظر آئیں، گویا تاریخ خود ان دیواروں سے جھانک رہی ہو۔

پھر ہم ایک سنگی مجسمے کے سامنے جا رکے۔ برابر ہی قرطبہ کی قدیم یہودی عبادت گاہ ‘سینیگوگ’ کی عمارت تھی، اور اُس کے عقب میں ایک چھوٹا سا میوزیم۔

یہ مجسمہ موسیٰ بن میمون (Maimonides) کا تھا۔ قرطبہ کا فخر، ایک عظیم یہودی فلسفی، طبیب اور قانون دان۔

پیڈرو نے ہمیں مجسمے کے سامنے روک کر کہا:

“یہ وہ زمانہ تھا جب خلافتِ امویہ کے دور میں قرطبہ دنیا بھر میں علم و ادب کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ بالکل آج کے ہارورڈ، پرنسٹن یا آکسفرڈ کی طرح۔ یہاں مسلمان، یہودی اور مسیحی مل جل کر رہتے، علم سیکھتے، بانٹتے، اور انسانیت کی فلاح کے لیے کوشاں رہتے۔”

قرونِ وسطیٰ کے اُس سنہری دور میں یہ محلہ علم و حکمت کا گہوارہ تھا۔ یہاں یہودی علما، مترجم، فلاسفر، اور طبیب آباد تھے۔ عربی، عبرانی اور لاطینی زبانوں میں تراجم کا کام جاری رہتا، اور قرطبہ کی عظیم الشان لائبریریوں میں یہودی اہلِ علم کا کردار نمایاں ہوتا۔

یہاں کے مکانات عمومی طور پر دو منزلہ ہوتے، جن کے درمیان خوشنما صحن، فوارے اور سنگترے کے درخت ہوتے۔ خواتین کھڑکیوں سے جھانکتیں تو راہگیر کنکھیوں سے انہیں دیکھ لیتے۔ بچے عبرانی اور عربی میں سبق دہراتے۔ مسجدِ قرطبہ سے جب اذان کی آواز آتی تو یہودی مکتب میں بھی خاموشی چھا جاتی۔

یہ وہ وقت تھا جب عقائد الگ الگ ہوتے ہوئے بھی ہم آہنگی سے ساتھ جیتے تھے۔

پیڈرو نے کہا:

“موسیٰ بن میمون کا عبرانی نام ‘موشی بن میمون’ (Moses ben Maimon) تھا، وہ 1135 یا 1138 کے آس پاس قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک جج اور یہودی عالم تھے، جنہوں نے ابتدائی تعلیم خود دی۔
بعد ازاں، بدلتے حالات کے باعث ان کا خاندان قرطبہ سے ہجرت کر کے اندلس کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا قاہرہ (مصر) جا پہنچا۔”

“موسیٰ بن میمون نہ صرف ایک عظیم فلسفی تھے بلکہ ماہرِ طب اور شریعت کے جج بھی۔
ان کی مشہور ترین تصنیف ‘دلالۃ الحائرین’ (The Guide for the Perplexed) نے قرونِ وسطیٰ کے علمی حلقوں میں گہرا اثر ڈالا۔
انہوں نے یونانی فلسفے، خصوصاً ارسطو کی تعلیمات کو یہودی مذہبی فکر سے جوڑ کر ایک نیا فکری پل تعمیر کیا۔
فلسفے کے علاوہ موسیٰ بن میمون سلطان صلاح الدین ایوبی کے دربار میں ذاتی معالج بھی رہے۔
انہوں نے طب پر ایسی کتب تصنیف کیں جن کا اثر یورپ میں کئی صدیوں تک محسوس کیا گیا۔
ان کی ایک اہم طبی تصنیف ‘رسالہ فی التدبیر الصحی’ (Treatise on Hygiene) آج بھی طب کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہے۔”

اندلسی قرطبہ کا اصل جوہر یہی تھا: علم، برداشت، رواداری اور انسانیت۔

پھر ہم سب آہستہ آہستہ مجسمے کے برابر میں واقع پرانی عبادت گاہ “سینیگوگ” میں داخل ہوئے۔

یہ عبادت گاہ قرطبہ کی چند باقی رہ جانے والی قرونِ وسطیٰ کی سینیگوگ میں سے ایک ہے، جو چودھویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئی تھی۔

اس کا طرزِ تعمیر کسی مسجد سے مشابہ تھا: بلند محرابی چھت، پلستر سے بنے دیدہ زیب نقش و نگار، سفید دیواروں پر عربی رسم الخط میں لکھی عبرانی تحریریں۔ کچھ دھندلی، کچھ واضح، مگر سب صدیوں پرانی خاموشی کے ساتھ موجود، پُرشکوہ اور بارُعب۔

دیواروں کے اوپری حصے پر گول محرابیں اور ستارۂ داؤد کے نقوش تھے۔

یہ ایک مستطیل کمرہ تھا، جس کی تین دیواروں پر خوبصورت آرائشی گچ کاری کی گئی تھی۔ ہر نقش میں ایک روحانی وقار تھا، گویا یہ عبادت گاہ صرف عبادت کے لیے نہیں، بلکہ سوچ، مکالمے اور قربتِ الٰہی محسوس کرنے کے لیے بنائی گئی ہو۔

کمرے کے ایک گوشے میں سیڑھیاں تہہ خانے کی طرف جاتی تھیں۔ شاید وہ خواتین کی عبادت کی جگہ ہو یا پرانی کتابوں کا ذخیرہ۔

کوئی تصویر کھینچ رہا تھا، کوئی بس دیکھ رہا تھا۔
شاید کسی نے دل ہی دل میں کوئی دعا بھی کی ہو۔

“صدیوں پہلے یہاں دعائیں سرگوشیوں کی صورت گونجی ہوں گی…
شاید ان چھتوں، ان دیواروں، اور ان محرابوں کو آج بھی انسانی امید، آرزو، تمنائیں اور ان کی بے بسی یاد ہو۔
وہ دن جب قرطبہ ایک ایسا شہر تھا جہاں عقائد صرف شناخت نہیں، بلکہ ایک دوسرے سے جُڑے انسانی تجربے تھے۔”

باہر نکل کر پیڈرو نے اعلان کیا:

“اب سب کو ڈیڑھ گھنٹے کا کھانے کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ قریبی ریستورانوں سے استفادہ کیجیے۔
ٹھیک دوپہر 2 بجے ہم مسجدِ قرطبہ کے مرکزی دروازے پر دوبارہ ملاقات کریں گے۔”

گروپ آہستہ آہستہ منتشر ہونے لگا۔

(جاری ہے…)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *