Lawyer’s attack in Lahore showed impulsiveness, exaggeration of sentiments, incapacity to reason and absence of judgment. Gustav Le Bon described all of these in his book, The Crowd
ہجوم کی نفسیات ، فکر انگیز انشے ، شارق علی ، ویلیوورسٹی
پی ای سی ہسپتال پر وکیلوں کے حملے نے ہم سب کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس واقعے کی ویڈیو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حملہ آور ہجوم عقل اور شعور سے مکمل طور پر ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے ؟ کیا اس موضوع پر سوچ و بچار مستقبل میں قوم کی حیثیت سے تحمل آمیز رویہ اختیار کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے ؟ گستاف لی بون ایک فرانسیسی ڈاکٹر اور فلسفی تھا جس نے ہجوم کی نفسیات کے بارے میں ایک اہم کتاب لکھی ہے . نام ہے دی کراؤڈ ، اسٹڈی آف پاپولرمائنڈ یعنی ہجوم اور عامیانہ نفسیات کا مطالعہ. وہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ افراد جب ایک ہجوم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں تو ان کے رویے میں غیر معمولی تبدیلی کیوں آ جاتی ہے ؟ آئیے اس کی بیان کی ہوئی فکر سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں . ہجوم سے مراد افراد کا وہ مجموعہ ہے جو کسی عقیدے ، نظریے ، مفاد ، یا خیال کے مشترک ہونے کی وجہ سے وجود پاتا ہے. حیرت کی بات یہ ہے کہ ہجوم کی نفسیات اور رویہ اس میں شامل لوگوں کی انفرادی نفسیات اور رویے سے بہت مختلف ہوتا ہے. فرد جو ہجوم سے باہر عام زندگی میں بہت مہذب تھا ہجوم کا حصّہ بن کر انتہائی وحشیانہ اقدامات اٹھاتا دکھائی دیتا ہے . لی بون کی رائے میں اس تبدیلی کی تین بنیادی وجوہات ہیں. گمنامی ، وبائی اثر اور تحریک و تجویز کی موجودگی . ان وجوہات سے واقف سیاست دان اور تاجر اخلاقی اصولوں سے بے پرواہ اکثر عوام کو ان ہی اصولوں کے تحت اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں. ہجوم گمنام ہوتا ہے اور اس میں شامل افراد اس غلط فہمی میں با آسانی مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ انفرادی ذمہ داری اور جواب دہی سے عاری ہیں ۔ موجودہ دور میں موبائل کیمرے اور سی سی ٹی وی فوٹج کی موجودگی میں یہ محض خام خیالی ہے . ہسپتال پر حملہ آور ہجوم میں شامل لوگوں کی ہمت اس قدر بڑھ چکی تھی کے انہوں نے وہ کچھ کیا جس کی وہ اپنی انفرادی حیثیت میں کبھی جرات نہ کرتے ۔ شاید اخلاقی اصول یا تربیت یا قانون کی گرفت اور سزا کا خوف انھیں روکے رکھتا . لیکن کیوں کے ہجوم ان کی دانست میں گمنام تھا اس لیے اس میں شامل لوگ نتائج سے بے پروا وہ کچھ کر بیٹھے جو وہ انفرادی حیثیت میں کبھی نہ کرتے . شخصی ذمہ داری کے خوف سے آزاد وہ گمنام ہجوم کا حصہ بن کر خود کو ناقابل شکست اور قانون کی گرفت سے آزاد محسوس کرنے لگے . دوسری وجہ ہے وبائی اثر ۔ یعنی ہجوم میں شامل کسی ایک شخص کا رویہ کسی وبائی مرض کی طرح تیزی سے ہجوم کے دوسرے افراد میں پھیل جاتا ہے۔ دیکھا دیکھی کے اس عمل کو جو وبائی مرض کی طرح پھیلتا ہے بہت ساری تجارتی کمپنیاں اپنی پروڈکٹ بیچنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں. اگر ایک شخص شیشے توڑنا یا آگ لگانا یا نہتے اور بے قصور لوگوں پر تشدد کرنا شروع کر د ے تو باقی لوگ بلا سوچے سمجھے اس وبائی اثر کا شکار ہو کر اس رویے کی تقلید شرو ع کر دیتے ہیں . فرد کا ذاتی مفاد بلا سوچے سمجھے ہجوم کے مفاد پر قربان ہو جاتا ہے جو ایک سنگین غلطی ہے۔ تیسری وجہ ہے تحریک و تجویز۔ انگریزی کا ایک لفظ ہے ڈیما گوگ جو دو یونانی لفظوں کا مجموعہ ہے۔ پہلا ڈیموس یعنی عوام اور دوسرا گوگوس یعنی لیڈر۔ انسانی تاریخ میں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں کچھ بے ضمیر لوگ عوامی تعصبات سے ہم آہنگ تحریک اور تجویز کے سبب طاقتور عوامی لیڈر قرار پائے ۔ انہوں نے اپنی قوم کو جو انفرادی طور پر جرم کرنے یا کسی کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی ایک ایسی زومبی یا عقل و خرد سے عاری قوم میں تبدیل کر دیا جس نے انتہائی ہولناک جنگی جرائم سے ہاتھ رنگے. اپنے جیسے انسانوں پر وہ ظلم ڈھائے جن کا وہ انفرادی طور پر تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ایسا مفاد پرست اور بے ضمیر لیڈر عوام کو ایک خاص طرز پر سوچنے اور محسوس کرنے کی تحریک اور تجویز دیتا ہے. ترغیب کے زیراثر انھیں منافرت ، تشدد اور پھر قتل و غارت گري کی سمت دھکیلتا ہے . ہٹلر، مسولینی اور آج کے دور کا ڈیما گوگ نریندر مودی ہماری نظروں کے سامنے ہے . لی بون کہتا ہے کہ ہجوم کا حصہ بننے کے بعد افراد انفرادی عقل سے عاری ہو کر ہپناٹائز اور مسمرایز چوہوں کی سی کیفیت میں اپنے ڈیما گوگ کے پیچھے بغیر سوچے سمجھے چلنے لگتے ہیں اور یوں پہلے دوسروں اور پھر خود اپنی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں. اب آپ سے اجازت سادہ سی اس بات کے ساتھ . بلا سوچے سمجھے ہجوم کا حصہ نہ بنیے. آپ کی انفرادی عقل اور آپ کا شعور ہی آپ کا تحفظ ہے ……… شارق علی ، ویلیوورسٹی