Skip to content
Home » Blog » گولڈ رش ، سولہواں انشا ، امریگو کہانی انشے سیریل ، ویلیوورسٹی

گولڈ رش ، سولہواں انشا ، امریگو کہانی انشے سیریل ، ویلیوورسٹی

  • by

گولڈ رش ، سولہواں انشا ، امریگو کہانی انشے سیریل ، ویلیوورسٹی


روبینہ کی والدہ بھی چاہے کے دوران کچھ دیر کے لیے ہمارے ساتھ آ بیٹھیں . یو پی کی معتبر زبان ، لہجے اور خاندانی رکھ رکھاؤ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بہت لطف دیا. کراچی میں ان کے گھر پر ملاقاتوں اور مداراتوں کے حوالے سے بہت سی خوشگوار یادوں کا تذکرہ رہا. کچھ وقت ہمارے ساتھ گزار کر وہ دعائیں دیتیں اپنے کمرے میں چلی گئیں . سلیم نے بڑے فخر سے فریم کیے پرانے اخبارات میں چھپے انگریزی کے آرٹیکل دکھاے. یہ ان کے بزرگوں نے قیام پاکستان کی حمایت میں آزادی کی تحریک کے دوران لکھے تھے۔ وہ تاریخی تصویر بھی دکھای جس میں ان کی پھوپھی ایک نوجوان طالبہ کی حیثیت سے پاکستان کا جھنڈا تھامے قاید اعظم اور لیاقت علی خان کے ساتھ کھڑی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہم بہت دیر تک پاکستان کے خواب اور موجودہ صورت حال کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ دلگداز باتیں۔ پھر خواتین کی طرف سے ہمیں ڈیکفینٹڈ چاہے کی پتی لانے کی ہدایت ملی اور ہم گولڈ رش جیسی عجلت سے گھر سے روانہ ہوے. سال تھا اٹھارہ سو اڑتالیس۔ جیمز مارشل نامی ایک بڑھئی سیکرےمونٹو میں اپنے کاروباری مالک جان سوٹر کے لیے پانی سے چلنے والی آرا مل بنا رہا تھا۔ ایک دن وہ پانی لانے کے لیے قریبی دریا پر گیا تو اس نے پانی کی سطح پر چمکدار سنہرے زرات دیکھے۔ اسے آس پاس سونے کی کانوں کی موجودگی کا شبہ ہوا۔ اس نے یہ منظر اپنے مالک سوٹر کو بھی دکھایا۔ جلدہی یہ دریافت ہو گیا کے یہ زرات سونے ہی کے ہیں۔ سوٹر نہیں چاہتا تھا کہ یہ بات باہر نکلے۔ وہ اس پاس کی زیادہ سے زیادہ زمین یعنی سونے کی کانوں پر پہلے ہی سے ملکیت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ تاہم یہ بات پھیلنا شروع ہوگئی. سیموئل برانن نامی مقامی شخص نے سونے کی دریافت کی تشہیر شروع کر دی۔اٹھارہ سو اڑتالیس سے اٹھارہ سو پچپن کے دوران پورے امریکہ بلکہ دیگر ممالک سے بھی بہت سے لوگ سونے کی تلاش میں اپنی قسمت آزمانے امریکہ کے مغربی ساحل کی سمت ہجرت کر گئے تھے. امریکی تاریخ کا یہ دور گولڈرش کہلاتا ہے. ہم کیفین سے چور اپنی اپنی کافی ختم کر خواتین کے لئے ڈی کیفینیٹڈ چائے کی پتی کی تلاش میں کوسٹکو پوھنچے تو وہاں ایک خلقت کو موجود پایا. کہنے کو تو یہ مقامی اسٹور تھا لیکن کسی کرکٹ گراؤنڈ جتنا کشادہ اور بھانت بھانت کی مصنوعات سے لدالد بھرا ہوا۔ چاے کی پتی کی تلاش کے بہانے ہم اس اسٹور کی بھول بھلیوں میں خاصی دیر تک آوارہ گردی اور سیر کرتے رہے . کہتے ہیں پہلا کوسٹکو اسٹور انیس سو تراسی میں سیئٹل میں کھولا گیا تھا۔ یہ ذیادہ مقدار میں مصنوعات کی فروحت اور کم قیمتوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس کمپنی کا نصب العین ہے “ہم سب سے کم قیمت پر اعلیٰ معیار کا سامان فروخت کرتے ہیں۔ گولڈ رش میں ہزاروں لوگوں نے امیر بننے کے لیے کیلیفورنیا کا رخ کیا تھا ۔ گھوڑا گاڑیوں یا کشتیوں کے زریعے۔ چونکہ بہت سارے لوگوں نے ایکساتھ ہجرت کی تھی اس لیے لوگوں کے رہنے کے لیے بوم ٹاؤن قائم کرنے پڑے۔ کچھ بستیاں تو سونا ختم ہونے کے بعدسنسان ہو گئیں ، لیکن کچھ قصبے آج شہروں میں تبدیل ہو چکے ہیں . ان میں سان فرانسسکو جیسا بڑا شہر بھی شامل ہے. اٹھارہ سو اڑتالیس میں یہ ایک ہزار افراد کی آبادی سے بڑھ کر ایک سال بعد پچیس ہزار کی ابادی تک پہونچ گیا تھا۔ اس ہجرت کے دوران بہت سی صنعتیں خود بخود ترقی پاتی گئیں تھیں. رہائش، کھانے پینے کے علاوہ سونے کی کان کنوں کو کان کنی کے اوزار مثلآ بیلچے جیسے کافی سامان کی ضرورت ہوتی تھی، بہت سے سمجھدار کاروباری افراد نے خود سونا تلاش کیے بغیر آلات اور سامان کی فروخت سے خوب فائدہ اٹھایا . بلکہ انھیں سونے کے کان کنوں کی نسبت زیادہ امیر بننے کا موقع ملا ۔ سونے سے تو چند افراد امیر ہوئے، اکثریت نے ملحقہ کاروباروں سے فایدہ اٹھایا . اٹھارہ سو پچپن میں سونے کے ذخائر ختم ہوے تو زبردست جوش و خروش اور ہجرت کا یہ دور بھی ختم ہو گیا. کوستٹکو سے گھر واپسی کے بعد گفتگو اور خاطر داری کا یہ حسین سلسلہ بالآخر ختم ہوا. ہم پروگرام کے مطابق سالگرہ کی تقریب میں شرکت اور ڈنر کے لیے ورجینیا سے رخصت ہوئے… جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *