Skip to content
Home » Blog » کاش انشا

کاش انشا

  • by

کاش انشا

فکری محفل 2030 کا آغاز ہونے ہی والا ہے۔ ہم اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ میرا نام تا کا سو ہے اور میں اپنے ساتھیوں، ٹم، یوری اور لز کے ساتھ میٹروپولس ڈوم میں مقیم ہوں۔ یہیں اس فکری محفل کا انعقاد ہو رہا ہے۔ ہمارا ڈوم خلا میں نئی انسانی بستیوں کے امکان اور امید کی ایک علامت ہے۔ یہ انسانی تاریخ کی پہلی خلائی بستی ہے جو ناسا اور انٹرنیشنل سپیس ایجنسی کے اشتراک سے، 60 بلین ڈالر کی خطیر رقم سے قائم ہوئی ہے۔

یہاں پہنچنے میں ہمیں سات مہینے لگے۔ زمین پر واپسی کے لیے کوئی ٹیکنالوجی دستیاب نہیں ہے۔ زندگی یا موت، اب مریخ ہمارا مستقل مسکن بن چکا ہے۔ سخت انتخابی مراحل اور جانسن اسپیس سنٹر میں کئی سالوں کی بھرپور ٹریننگ کے بعد، ہم یہاں مریخ کے ناموافق حالات میں بھی روزمرہ کی زندگی اور سائنسی مصروفیات کامیابی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ ہم اور زمین انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

ہم روزانہ آٹھ گھنٹے کی سنجیدہ سائنسی مصروفیت میں مصروف رہتے ہیں اور فرصت ملتے ہی سماجی ویب سائٹس سے ذہنی تفریح کرتے ہیں۔ فیس بک اور گوگل ہمیں زمینی حقائق اور اپنے خاندانوں سے رابطے میں رکھتے ہیں۔ شاید آپ کو حیرت ہو کہ ہم زمینی اور انسانی مسائل سے اب جتنا واقف اور متعلق ہیں، زمین پر رہتے ہوئے بھی نہیں تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ذہن ہر وقت زمینی کیفیتوں کی بارش میں شرابور رہتے ہیں۔

آج کی فکری محفل میں، میں جو مقالہ پڑھوں گا، اس کا عنوان ہے: “خوبصورت دنیا کی بدصورت سیاسی اور جغرافیائی تقسیم: انسانی قدروں کی پامالی کا سبب”۔
ٹم جس موضوع پر بات کرے گا وہ ہے: “افلاس، علمی محرومی اور کثیر وسائل کی نابینا ترجیحات”۔
لز، جو ایک شاعرہ بھی ہے، آج دو نظمیں سنائے گی۔ پہلی کا عنوان ہے: “زچہ اور بچہ کی بیچارگی کا نوحہ آسمانوں تک” اور دوسری: “کہکشاؤں سے انسانی خواب کے مرنے کا منظر”۔
یوری کے اختتامی مقالے کا عنوان ہے: “لمحۂ آج میں 60 بلین ڈالر کا فلاحی ہدف: زمین یا آسمان؟”۔

آج کی فکری محفل کا بنیادی خیال ہے: کاش۔

شارق علی
وہلیوورسٹی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *