کارل سیگن: کائنات کا پُرعزم مسافر
شارق علی
ویلیوورسٹی
دنیا نے کائنات کی کہانی جس آواز اور عام فہم انداز میں پہلی بار سنی، وہ کارل سیگن کی آواز تھی—پرسکون، دوستانہ اور امید سے لبریز۔ Cosmos دیکھنے والے یہ محسوس کرنے لگے کہ کائنات کوئی دور دراز، سرد حقیقت نہیں، بلکہ ایک مانوس اور انسانی کہانی ہے۔
مگر اس آواز کے پیچھے ایک ایسا انسان تھا جو خاموشی سے ایک جان لیوا اور شدید بیماری سے لڑ رہا تھا۔
1979 میں، جب Cosmos دنیا کی سب سے بڑی سائنسی سیریز بننے کی طرف بڑھ رہی تھی، کارل سیگن ایک مہلک خون کی بیماری کے علاج سے گزر رہے تھے۔ روزانہ صبح اسپتال میں امیون انفیوژن، اور چند گھنٹوں بعد اسٹوڈیو میں کھڑے ہو کر کائنات پر گفتگو۔ ناظرین کو صرف علم اور سکون نظر آتا تھا، مگر پردے کے پیچھے ایک تھکا ہوا لیکن غیر معمولی طور پر پُرعزم انسان موجود تھا۔
چھ ماہ میں تیرہ ملکوں کا سفر—یونان، مصر، بھارت اور وہ خطے جہاں انسانی فلکیاتی شعور نے جنم لیا۔ اس ساری مشقت کے باوجود سیگن راتوں کو اسکرپٹ دوبارہ لکھتے۔ جب ڈاکٹر آرام کا مشورہ دیتے تو وہ مسکرا کر کہتے:
سائنس درست ہونی چاہیے۔
ان کے نزدیک سائنس محض معلومات کا ذخیرہ نہیں تھی، بلکہ انسانیت کے مستقبل کی ضمانت تھی۔
ان کی اہلیہ اور شریکِ قلم، این ڈرُوئین، کے نوٹس اس دور کی خاموش گواہی دیتے ہیں۔ اس سادہ سی سطر میں پورا انسان سمٹ آیا ہے:
“صبح اسپتال، دوپہر اسٹوڈیو—کارل تھکے ہوئے ہیں، مگر پُرعزم۔”
Pale Blue Dot کا مشہور پیغام شاید ان کی زندگی کے مشکل ترین لمحات میں ریکارڈ ہوا۔ ایک ایک جملے پر بار بار غور، آواز کی رفتار اور ٹھہراؤ پر غیر معمولی توجہ—یہ سب اس لیے کہ حقائق کی درستگی اور ذمہ داری پوری دیانت کے ساتھ ادا ہو سکے۔
کارل سیگن کے لیے کائنات کوئی دور کی شے نہیں تھی۔ وہ اسے انسانی سانسوں سے جڑی ایک زندہ حقیقت سمجھتے تھے۔ اسی لیے وہ بیماری، تھکن اور کمزوری کے باوجود یہ پیغام دینا نہیں بھولے:
ہم اسی ننھے سے نیلے نقطے پر ایک ساتھ جینے کے پابند ہیں۔ یہی ہمارے تمام خوابوں اور امیدوں کا گھر ہے۔
Cosmos اسی سوچ کا اظہار تھا—محض ایک ٹی وی سیریز نہیں، بلکہ انسانی شعور کو بیدار کرنے کی ایک سنجیدہ اور دیانت دار کوشش۔
