کائنات اور انسان: ایک فلسفیانہ سوال
پروفیسر براین کوکس
ترجمہ: وہلیوورسٹی
ایک اہم فلسفیانہ سوال یہ ہے کہ:
“ایک لامحدود اور ابدی کائنات میں ایک محدود، نازک اور کمزور سی زندگی کی آخر کیا معنویت ہو سکتی ہے؟”
یہ کوئی مزاحیہ سوال نہیں، بلکہ ایک نہایت سنجیدہ اور اہم سوال ہے۔
درحقیقت، یہ ایک بہت اچھا سوال ہے۔
میری رائے میں اس کا جواب قدرے متضاد (paradoxical) ہے۔
ہم جسمانی اعتبار سے بلاشبہ بے حد معمولی اور بے وقعت ہیں۔
ہماری زمین ایک ستارے کے گرد گھومنے والا ایک نہایت غیر اہم سا سیارہ ہے،
جو 400 ارب ستاروں پر مشتمل صرف ایک کہکشاں — ملکی وے — کا حصہ ہے۔
اور ایسی تقریباً 2 ٹریلین کہکشائیں صرف اس قابل مشاہدہ کائنات میں موجود ہیں۔
تو ہاں، ہم واقعی بہت چھوٹے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں۔
ہم بس گرد کے ذرات کی مانند ہیں۔
لیکن…
اگر ہم گہرائی سے سوچیں، تو سوال یہ بنتا ہے کہ: ہم اصل میں ہیں کیا؟
ہم صرف ایٹمز کا مجموعہ ہیں۔
اور یہ ایٹمز بھی معمولی نہیں — ہمارے جسم میں موجود بعض ایٹمز اتنے ہی قدیم ہیں جتنی خود کائنات کی عمر۔
ہمارے جسم میں ہائیڈروجن کے علاوہ باقی تمام عناصر ستاروں کے اندر وجود میں آئے —
اربوں سالوں کے ارتقائی عمل کے نتیجے میں۔
اور اب یہی ایٹمز ایک ایسے منظم سانچے میں ڈھل گئے ہیں
جو نہ صرف سانس لے سکتا ہے، بلکہ — سب سے بڑھ کر — سوچ سکتا ہے، سوال کر سکتا ہے۔
جیسا کہ کارل سیگن نے کہا تھا:
“ہم وہ ذریعہ، وہ آئینہ ہیں، جس کے ذریعے کائنات خود کو دیکھتی اور سمجھتی ہے”
تو یہ ہیں ہم