پہاڑی لڑکی
ڈاکٹر فیاض احمد شاد
ہم پنہ گیر تھے ۔
دل ترستا تھا گھر کے لئے۔
پاؤں رکھنے کو لیکن زمیں تنگ تھی۔
در بدر پھرتے پھرتے
ہمالہ کے دامن میں صدیوں پرانا نگر
بن گیا تھا ہمارے لئے عافیت کا نشاں
دھوپ میں مندروں کے دمکتے کلس
صاف پانی کے چشمے تھے اور لوگ بھی صاف دل
سردیوں کے وہ دن تھے جب اک دوپہر
ہم تھے کمرے میں خاموش بیٹھے ہوئے
ہلکی ہلکی سی دستک ہوئی.
ایک غمگین بّچی تھی باہر کھڑی۔
ٹھنڈ میں کپکپاتی ہوئی
اسکے ہاتھوں میں مٹی کا خالی کٹورا تھا
ویران آنکھیں تھیں نم.
“آپکے پاس تھوڑے سےچاول ہیں کیا؟
میری اماں کا دل چاہتا ہے۔
وہ برسوں سے بیمار ہیں۔”
میں نے پیالے کو پوری طرح بھر دیا
شکریہ اس نے جھک کے کہا اور رخصت ہوئی۔
تب سے ابتک اڑائی زمانے کی گردش نے کتنی ہی دھول
اسکے آنسو مگر
اب بھی دل میں کھلائیں دہکتے گلاب۔
اور کندن سا چہرہ منور کرے
میرے تاریک خواب
آواز و پیشکش
شارق علی