Skip to content
Home » Blog » پتھروں میں چھپی کہانی: پاکستان کی قدیم اوپن آرٹ گیلری

پتھروں میں چھپی کہانی: پاکستان کی قدیم اوپن آرٹ گیلری

پتھروں میں چھپی کہانی: پاکستان کی قدیم اوپن آرٹ گیلری

تحقیق و تدوین:

شارق علی
ویلیوورسٹی

قدیم شاہراہِ ریشم پر ماضی کا سفر

ذرا تصور کیجیے کہ آپ ایک بلند و بالا، بل کھاتی پہاڑی سڑک پر سفر کر رہے ہیں۔ چاروں طرف سر بہ فلک پہاڑوں کے سلسلے ہیں، اور آپ کی گاڑی کسی قدیم راستے پر محوِ سفر ہے۔ اب ذرا دھیان دیجیے—اسی سڑک کے کنارے، بڑے بڑے پتھروں پر انسانی ہاتھوں سے کھدے قدیم نقوش کندہ ہیں۔ یہ وہ نقوش ہیں جو ہزاروں سال پہلے گزرنے والے قافلوں، شکاریوں، راہبوں اور مسافروں کی کہانیاں سناتے ہیں۔

پاکستان کی قراقرم ہائی وے پر شاتیال سے رائےکوٹ پل کے درمیان تقریباً 100 کلومیٹر کے علاقے میں دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر آرٹ گیلری موجود ہے۔ یہاں 50,000 سے زائد چٹانی نقوش اور 5,000 سے زیادہ کتبے (تحریری نقوش) موجود ہیں، جو 9ویں صدی قبل مسیح سے لے کر 16ویں صدی عیسوی تک کے مختلف ادوار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ نقوش قدیم انسانوں کے طرزِ زندگی، مذہبی عقائد، فنونِ لطیفہ اور تاریخی تبدیلیوں کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرتے ہیں۔

یہ چٹانی نقوش کیا ہیں؟

یہ نقوش، جنہیں پیٹروگلیفس (Petroglyphs) کہا جاتا ہے، تیز دھار اوزاروں یا نوکیلے پتھروں کی مدد سے چٹانوں پر کندہ کیے گئے ہیں۔ ان میں مختلف موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں:

  1. ابتدائی دور کے نقوش (9ویں صدی قبل مسیح سے 1ویں صدی عیسوی تک)

یہ سب سے قدیم نقوش شکاری مناظر پر مشتمل ہیں۔ ان میں شکاری تیر کمان کے ساتھ جنگلی بکرے (آئیبیکس) کا شکار کرتے دکھائے گئے ہیں۔ انسانی شکلیں زیادہ تر تکون کی صورت میں کندہ کی گئی ہیں، جو اس وقت کے سادہ معاشرتی نظام کی عکاسی کرتی ہیں۔

  1. بدھ مت کے اثرات (1ویں صدی عیسوی سے 8ویں صدی عیسوی تک)

یہ وہ دور تھا جب بدھ مت شاہراہِ ریشم کے ذریعے ہندوستان، چین اور وسطی ایشیا میں پھیلنے لگا۔ بدھ راہبوں نے اپنے مقدس نشانات ان پتھروں پر نقش کرنا شروع کیے۔

ان میں بدھ مت کے اسٹوپا (عبادت گاہیں)، کنول کے پھول (روحانی پاکیزگی کی علامت)، اور جاتک کہانیوں (بدھ کی پچھلی زندگیوں کی کہانیاں) کے مناظر شامل ہیں۔

  1. جنگجو اور سواروں کی آمد (8ویں صدی عیسوی سے 16ویں صدی عیسوی تک)

اس دور میں کندہ کیے گئے نقوش میں گھڑ سوار جنگجو، ہتھیاروں سے لیس سپاہی اور جنگی مناظر شامل ہیں، جو اس علاقے میں ہونے والی سماجی و سیاسی تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

ان چٹانی تحریروں میں قدیم زبانوں میں کندہ عبارتیں بھی شامل ہیں، جو اس علاقے سے گزرنے والی مختلف تہذیبوں اور اقوام کے درمیان رابطے کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

یہ علاقہ کیوں اہم ہے؟

یہ علاقہ شاہراہِ ریشم کا ایک اہم تجارتی راستہ تھا، جہاں سے چین، ہندوستان، فارس اور رومی سلطنت کے تاجر، زائرین اور سیاح صدیوں تک گزرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں مختلف زبانوں میں تحریری نقوش پائے جاتے ہیں، جن میں شامل ہیں:

خروشتی اور برہمی (قدیم جنوبی ایشیائی رسم الخط)

سوگدی (وسطی ایشیائی زبان)

چینی اور تبتی

پروٹو-شاردا (شمالی ہندوستان کی قدیم تحریر)

قدیم عبرانی (یہودی مسافروں کی موجودگی کا ثبوت)

یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ علاقہ مختلف ثقافتوں کے باہمی تبادلے کا ایک اہم مرکز تھا۔

کیا یہ چٹانی نقوش مٹ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں؟

بدقسمتی سے دیامر-بھاشا ڈیم کی تعمیر کے نتیجے میں یہ علاقہ پانی میں ڈوب جائے گا، جس کی وجہ سے ہزاروں سال پرانی یہ قیمتی یادگاریں ہمیشہ کے لیے غائب ہو سکتی ہیں۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور تاریخ دان ان نقوش کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنے، انہیں منتقل کرنے، یا ڈیجیٹل طریقے سے ریکارڈ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ انسانی ورثہ محفوظ رہے۔

کیا ہمیں اس ثقافتی ورثے کی پرواہ کرنی چاہیے؟

یاد رکھیے! یہ نقوش محض پتھر نہیں، بلکہ ہزاروں سال پرانی تاریخ کی کتابیں ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہاں کون لوگ رہتے تھے، ان کے عقائد کیا تھے، اور وہ اپنی دنیا کو کیسے دیکھتے تھے۔ اگر یہ نقوش ضائع ہو گئے تو ہمارے ماضی کا ایک ایسا حصہ ختم ہو جائے گا جسے دوبارہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

اگر ہم اس بارے میں آگاہی پھیلائیں، تو شاید ان قیمتی نوادرات کو بچانے کے لیے مزید اقدامات کیے جا سکیں۔ اپنے ماضی کو سمجھنے سے ہمیں حال کو بہتر طور پر دیکھنے اور مستقبل کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

آخری بات: خاموش پتھر جو گفتگو کرتے ہیں

شاتیال سے رائےکوٹ پل کے درمیان موجود چٹانی نقوش پاکستان اور پوری دنیا کے لیے ایک قیمتی تاریخی ورثہ ہیں۔ یہ خاموش پتھر ہزاروں سالوں سے وقت کی مار جھیلتے ہوئے بھی آج تک خاموش نہیں ہوئے—یہ اب بھی اپنی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ بس انہیں سننے کی ضرورت ہے۔

کیا ہم انہیں ہمیشہ کے لیے کھو دیں گے یا ان کی حفاظت کے لیے مل کر قدم بڑھائیں گے؟ اگلی بار جب آپ شاہراہِ ریشم پر سفر کریں، تو ارد گرد کے پتھروں کو غور سے دیکھیں—ممکن ہے کہ وہ آپ کو اپنی ہزاروں سال پرانی کہانی سنا رہے ہوں!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *