وادی الکبیر ، اندلس کہانی (چوتھی قسط)
شارق علی
ویلیو ورسٹی
کوچ قرمونہ سے روانہ ہو کر اب قرطبہ کی سمت رواں دواں تھی۔ قلعے کی بلندی سے نشیب میں واقع وادی الکبیر کے سرسبز و شاداب میدانوں میں اترتے ہوئے ہم نے کوچ کی کھڑکی سے نرم دھوپ اور حدِ نظر تک پھیلے زیتون کے سبزہ زاروں کو آنکھ مچولی کھیلتے دیکھا۔
کوچ وادی الکبیر کے میدانی علاقوں میں تعمیر شدہ جدید ہائی وے پر تیزی سے رواں دواں تھی۔ کشادہ شیشوں کی کھڑکیوں سے نظر آتی دور تک پھیلی زیتون کی تیار فصلیں قابلِ دید تھیں۔ سبز اور سیاہ زیتون کے باغات کی قطاریں، اور کہیں کہیں تیزی سے پیچھے کی طرف جاتی انگور کی دور تک کی گئی کاشت، منفرد منظر پیش کر رہی تھیں۔ انگور کی بیلیں بانسوں پر کچھ اس انداز سے چڑھائی گئی تھیں جیسے فطرت نے خود انہیں اسی صورت میں تشکیل دیا ہو۔
لہلہاتی وادی الکبیر سے میں نے سرگوشی میں کہا:
“کیوں نہ تم مجھے اپنی کہانی سناؤ؟”
مجھے معلوم تھا کہ یہ زرعی جنت داستان گو بھی ہے۔ جواب آیا:
“میرے عروج کی کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے جب اموی شہزادہ عبدالرحمٰن الداخل 755ء میں مشرق سے فرار ہو کر یہاں اندلس پہنچا تھا۔ اسی وادی میں اُس نے اپنے پرتشدد ماضی کو بھلا کر ایک نئے خواب کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ ایک غیرمعمولی انسان تھا — عزم، حکمت، اور تدبر کا پیکر۔ وہ بے سروسامانی کی حالت میں اس وادی میں آیا تھا، مگر جلد ہی اس نے اپنی ذہانت اور تدبر سے اموی دور کے حمایتی قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر اندلس کو سیاسی استحکام، تہذیبی شائستگی، اور زرعی خوشحالی کی راہ پر گامزن کر دیا۔
اس نے 756ء میں قرطبہ (Córdoba) میں ایک آزاد اموی ریاست قائم کی، جو خلافتِ عباسیہ سے سیاسی طور پر مکمل خودمختار تھی۔ اس نے قرطبہ کو اپنا دارالحکومت بنایا اور اس شہر کو علم، فن، اور تہذیب کا مرکز بنایا۔
مؤرخین اسے “صقرِ قریش” یعنی قریش کا باز کہتے ہیں، جو نہ صرف جنگی حکمتِ عملی میں ماہر اور ہوشیار تھا بلکہ علم و فن اور تہذیبی فروغ میں بھی بے مثال۔
عبدالرحمٰن اور اس کے بعد کے آنے والے مسلم حکمرانوں نے وادی الکبیر میں جدید نہری نظام متعارف کروایا۔ انہوں نے دریا کے پانی کو چھوٹے بڑے نالوں کے ذریعے کھیتوں تک پہنچایا، پانی کی تقسیم کو باقاعدہ اصولوں کے تحت منظم کیا، اور ‘ساقیہ’ کہلانے والی پانی کی چرخیاں استعمال کیں، جن سے بغیر کسی انسانی مشقت کے کھیتوں کو سیراب کیا جا سکتا تھا۔ یہی نہیں، وقت کے تعین کے لیے “مُوقّت” مقرر کیے گئے جو سورج کی روشنی سے دن کے حصے ناپتے اور کسانوں کو فصلوں کی آبیاری کے لیے مناسب اوقات بتاتے تھے۔
یہ نظام اور اس کے نتیجے میں آنے والا انقلاب محض زراعت تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خوشحالی نے اس پورے خطے کی تہذیب و ثقافت میں انقلابی نظم پیدا کیا۔
زرعی انقلاب کی حکمتِ عملی نہ صرف پانی کو ضائع ہونے سے بچانا تھی بلکہ سماجی انقلاب نے معاشرتی انصاف کو بھی یقینی بنایا۔ زمین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہی تہذیب و ثقافت کی ترقی کی جانب پہلا قدم ثابت ہوا۔
اب ہماری کوچ قرطبہ شہر کے مضافات میں داخل ہو رہی تھی۔ ہم جدید تعمیر شدہ بستیوں اور بازاروں سے گزرتے ہوئے بالآخر دریا کے کنارے واقع ایک خوبصورت لیکن تنگ گلی میں آ کر رک گئے۔ گائیڈ نے نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ ہم کوچ سے باہر آئے اور قطار بنا کر گائیڈ کے پیچھے چلنے لگے۔ کوئی سو گز پیدل چلنے کے بعد اب ہم سب ایک قدیم لیکن پُرشکوہ قلعہ نما تاریخی دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔ یہ تھا رومن گیٹ۔ گیٹ کے عین سامنے کھڑا ایک اور گائیڈ ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ یہاں گائیڈز کی ہینڈنگ اوور/ٹیکنگ اوور تقریب منعقد ہوئی۔ سیوئیل کے گائیڈ نے یہ کہہ کر کہ پیڈرو قرطبہ کی تاریخ کا ماہر اور بہترین گائیڈ ہے، ہم سے اجازت لی۔
رومن دروازہ قرطبہ شہر کے سامنے بہتے دریا پر بنے تاریخی پل کے دہانے پر واقع تھا۔ یہی وہ واحد پل تھا جس سے قافلے اور مسافر قرطبہ میں داخل ہوا کرتے تھے۔
قرطبہ کی تاریخ کے ماہر گائیڈ پیڈرو نے پہلے تو ہمیں رومن گیٹ کے تاریخی پس منظر کے بارے میں بتایا۔
موجودہ دروازہ اصل میں سولہویں صدی میں رومن فصیل کے بقایا جات پر تعمیر ہوا تھا۔ اس کی موجودہ شکل زیادہ تر نشاةِ ثانیہ کی تعمیری مہارت کی مرہونِ منت ہے۔ کیونکہ اس کی بنیادیں قدیم رومی عہد سے جڑی ہوئی ہیں، اس لیے یہ اب بھی رومن گیٹ اور رومن پل کہلاتا ہے۔
ہم اپنے گائیڈ کے پیچھے پیدل چلتے ہوئے رومن برج کو عبور کر کے مسلمانوں کے اندلس کے دارالحکومت قرطبہ میں داخل ہو رہے تھے۔۔۔ جاری ہے۔