Skip to content
Home » Blog » موزارٹ میوزیم — آسٹریا کہانی

موزارٹ میوزیم — آسٹریا کہانی

  • by

تیرہویں اور آخری قسط

تحریر: شارق علی
ویلیو ورسٹی

یہ ویانا میں ہمارے قیام کا آخری دن تھا۔ اگرچہ دھوپ نکلی ہوئی تھی، لیکن ہلکی سی خنکی ایک حسین امتزاج پیدا کر رہی تھی۔ ہم موزارٹ میوزیم کی طرف روانہ ہوئے۔

موزارٹ کی دھنوں کا گرویدہ کون نہیں؟ آج ہمیں اس عظیم فنکار کی زندگی کو قریب سے جاننے کا موقع ملنے والا تھا۔

مرکزی ویانا کی بارونق، قدیم و جدید عمارتوں کے درمیان چہل قدمی کرتے ہوئے، ہم “ڈوم گاسے” کی ایک تنگ سی گلی میں واقع موزارٹ ہاؤس پہنچے۔ یہ باہر سے بالکل سادہ سی عمارت، اندر سے ایک دلکش عجائب گھر ثابت ہوئی۔
پری پیڈ ٹکٹ دکھانے کے بعد ہمیں معلوماتی کتابچہ اور آڈیو تبصرے کے لیے ایک آلہ فراہم کیا گیا۔

اس میوزیم کا ہر کمرہ، ہر دیوار، جیسے کوئی داستان سناتی ہو۔
وہ چھوٹا سا کمرہ بھی دیکھا جہاں موزارٹ نے “میریج آف فیگارو” جیسا شاہکار تخلیق کیا۔ یوں لگا جیسے ہم وقت کی لکیر پھلانگ کر اسے اپنے کام میں مصروف دیکھ رہے ہوں۔ دیوار پر لگی اس کی ہاتھ سے لکھی ہوئی دھنیں، چھوٹا سا پیانو، ذاتی خطوط—سب کچھ خاموش مگر معنی خیز محسوس ہو رہا تھا۔

مونا نے میرے کان میں سرگوشی کی:
“کتنی غیر معمولی بات ہے کہ کوئی فنکار صرف پینتیس برس جیے، مگر صدیوں کے لیے امر ہو جائے۔”

ستائیس جنوری سترہ سو چھپن کو آسٹریا کے شہر سالزبرگ میں پیدا ہونے والے اس نابغۂ روزگار فنکار نے محض پانچ سال کی عمر میں موسیقی ترتیب دینا شروع کر دی تھی۔ چھ برس کی عمر میں پہلی بار دربار میں فن کا مظاہرہ کیا۔
اپنی مختصر مگر شان دار پینتیس سالہ زندگی میں موزارٹ نے چھ سو سے زائد موسیقی کے شاہکار تخلیق کیے، جن میں اوپیرا، سمفنی، سوناتا اور مذہبی دھنیں شامل ہیں۔

بچپن ہی سے انہوں نے اپنے والد لیوپولڈ موزارٹ کے ہمراہ یورپ کا سفر کیا اور لندن، پیرس، روم اور ویانا جیسے شہروں میں پرفارم کیا۔
ان کی مشہور ترین تخلیقات میں “دی میجک فلوٹ”، “میریج آف فیگارو”، “ڈان جیووانی” اور “ریکوئیم” شامل ہیں۔
سترہ سو اکیانوے میں، صرف پینتیس برس کی عمر میں، وہ پراسرار حالات میں وفات پا گئے۔ ان کا آخری شاہکار “ریکوئیم” ان کی موت سے چند روز قبل مکمل ہوا۔

موزارٹ میوزیم سے نکلے تو سورج مغرب کی آخری سیڑھی پر تھا۔ سائے لمبے ہو رہے تھے۔ ہم ویانا کی گلیوں میں الوداعی چہل قدمی کرتے ہوئے “کارل چرچ” کے خوبصورت گرجا گھر کے سامنے جا پہنچے۔
یہ بے حد کشادہ اور بلند و بالا عمارت ایک کھلے چوک میں واقع تھی، بیچ میں ایک بڑا سا فوارہ، اور اس کے گرد بینچیں۔ ہم ایک بینچ پر بیٹھ گئے اور وہاں وائلن پر پرفارم کرتے ایک فنکار کے ہنر سے لطف اندوز ہونے لگے۔

فوارے کا پانی دھیمے سروں میں بہہ رہا تھا۔ اردگرد چہل پہل تھی—نوجوان جوڑے تصویریں کھنچوا رہے تھے، نوعمر لڑکے لڑکیاں رولر اسکیٹنگ کر رہے تھے، اور کچھ بزرگ افراد ہماری طرح بینچوں پر بیٹھے منظر کا لطف لے رہے تھے۔
کچھ فاصلے پر، نظروں سے اوجھل ایک بازیگر غالباً اپنی مہارت کا مظاہرہ کر رہا تھا، جس کا احساس وقفے وقفے سے تالیوں اور نعروں سے ہو رہا تھا۔

ویانا صرف موسیقی کا شہر نہیں بلکہ تاریخ کا بھی ایک گواہ ہے۔
جب نپولین بوناپارٹ نے یورپ کو فتح کیا، تو ویانا اس کی فوجی حکمت عملی کا مرکز رہا۔
بیسویں صدی میں ایڈولف ہٹلر نے اسی شہر میں بچپن گزارا، اور یہاں کی فضا نے اس کے سیاسی رجحانات کو جِلا بخشی۔
یہ شہر دو عالمی جنگوں کا خاموش تماشائی بھی رہا، اور آج بھی اس کی دیواروں میں سنی اَن سنی کہانیوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

رات گہری ہو چکی تھی۔ ویانا کی بروک طرزِ تعمیر کی عمارتیں جگمگا رہی تھیں۔ ایک پُراسرار سا حسن چاروں طرف بکھرا ہوا تھا۔ ہم چہل قدمی کرتے ہوئے “ویانا اسٹیٹ اوپیرا ہاؤس” کی طرف بڑھے، اور اس کی روشنیوں سے لطف اندوز ہوئے۔
اب ہم زیر زمین ریلوے اسٹیشن کی جانب رواں تھے تاکہ ہوٹل واپسی کا سفر اختیار کیا جا سکے۔

کل صبح ہماری روانگی ہے۔ ناشتہ، چیک آؤٹ، اور پھر ہوائی اڈے سے لندن واپسی کی پرواز۔
لیکن آسٹریا کا یہ قیام اور ویانا کی آخری شام… تادیر یاد رہے گی۔

۔۔۔اختتام۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *