Skip to content
Home » Blog » ظہران ممدانی:جیت فرد کی یا نظام کی؟

ظہران ممدانی:جیت فرد کی یا نظام کی؟

  • by

ظہران ممدانی:
جیت فرد کی یا نظام کی؟

شارق علی
ویلیوورسٹی

ممدانی کی جیت، فرد کی کامیابی سے کہیں بڑھ کر، جمہوری ضمیر کی جیت ہے۔
یہ دراصل اُس نظام کی جیت ہے جو اختلاف کو جگہ دیتا ہے، سوال اٹھانے کو گناہ نہیں سمجھتا، اور انسان کو اُس کی نیت، کردار اور صلاحیت سے جانچتا ہے — نہ کہ اُس کے عقیدے، نسب یا پس منظر سے۔

یہ اُس معاشرے کا اعزاز ہے جو اپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہے کہ ایک تارکِ وطن، غیر مذہب اور سوشلسٹ نوجوان کو بھی اپنا رہنما مان لیتا ہے، اگر وہ سچ بولنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور انصاف کی بات کرتا ہو۔

اگر یہی سوچ ہمارے معاشرے میں جنم لیتی تو شاید اُس کی پہلی سانس ہی گھٹ کر رہ جاتی۔

ظہران جب حلقے میں ووٹ مانگنے نکلتا تو جبران ناصر کی طرح اُس پر دباؤ ڈالا جاتا کہ وہ احمدیوں کے خلاف نعرے لگائے۔
کوئی اُس پر اپنے مسلک سے مختلف ہونے کی بنیاد پر کفر کے فتوے لگاتا، کوئی اُس کے عقیدے کی کھوج میں پڑ جاتا۔
کوئی اُس کی ہندو ماں کے مذہب کا طعنہ دیتا اور کوئی اُس کے سوشلسٹ نظریات کو اسلام دشمنی کی علامت قرار دے دیتا۔
خفیہ ادارہ اُس کی فائل کھول دیتا کہ یہ شخص “نظام” کے خلاف کیوں بولتا ہے۔

ہمارا نظام بھی کیا عجب چیز ہے. اپنی پوری توانائی اُن راستوں پر پہرہ دینے میں لگا دیتا ہے جن سے گزر کر ہمارے یہاں کے ظہران ممدانی پیدا ہوسکتے ہیں۔

مگر جب کوئی ممدانی سات سمندر پار کسی جمہوری معاشرے میں پہچانا جاتا ہے، تو ہم فخر سے کہتے ہیں:
“دیکھو، ہم جیت گئے!”

ہم بھول جاتے ہیں کہ اپنے ہی دیس میں ایسے خواب دیکھنے والوں پر ہم نے خود پابندیاں لگا رکھی ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے پوچھیں:
کیا ہم واقعی جمہوریت چاہتے ہیں؟
یا صرف اُس کا نام؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *