Amir Khusrow is an icon of music and culture in northern India and current day Pakistan. Invention of Sitar, Tabla and Qawali are few of his achievements this episode talks about
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
صدائے ساز، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ساتواں انشا
نیرنگ آباد سٹیشن پر انکل پٹیل اور یانی آپا منتظر تھے۔انکل دادا جی کے شاگرد، پھر ماتحت اور اب گہرے دوست ہیں اوراکلوتی یانی آپا ان کی مرحومہ بیگم کی واحد نشانی۔ہمارا قیام ان ہی کے گھر تھا۔ عمر میں مجھ سے سات سال بڑی یانی آپا میڈیکل کے چوتھے سال کی طالبہ ہیں، دو ایک روز ہی میں ہم گہرے دوست بن گئے۔ خوش لباس، خوش مزاج اور پڑھی لکھی۔ آنکھیں جیسے دمکتے ستارے اور ہنسی جیسے ہونٹوں سے جھڑتے ہار سنگھار کے پھول۔ یہ ہیں یانی آپا۔ ادب، شاعری، حالات حاضرہ اور موسیقی کی دلدادہ۔ داداجی گیسٹ روم اور میں اسٹڈی میں مقیم تھا۔ شیلف میں رکھی کتابوں سے شناسائی تو ہونا ہی تھی۔ میڈیکل، ادب اور شاعری کی ترتیب سے رکھی کتابیں۔ ایک کونے میں مسند پر ستار اور طبلے کی جوڑی رکھی تھی ۔ستار بجانا یانی آپا کا شوق نہیں جنون ہے۔ اس دن شام میں جب وہ مسند پہ بیٹھیں ستار کے تاروں کو دھیرے دھیرے چھیڑ رہی تھیں میں نے ایک کتاب کا صفحہ پلٹا۔اور انہیں یہ شعر پڑھ کر سنایا۔ ان کی نازک انگلیوں کو دیکھ کر اکثر عدم— ایک ہلکی سی صدائے ساز آتی ہے مجھے . پھر کتاب بند کی اور پوچھا۔ستار کب ایجاد ہوا یانی آپا؟ بولیں:تیرہویں صدی عیسوی میں دہلی میں علاء الدین خلجی کے دربار میں امیر خسرو نے اسے متعارف کروایا تھا۔ ہو سکتا ہے ایرانی سہ تار اس کا جد امجد ہو۔ اورطبلہ؟میں نے پوچھا۔ طبلے کی جوڑی قدیم ہندستانی ڈھول پکھاوج کی تہذیب یافتہ صورت ہے ممدو، امیر خسرو اس کے بھی موجد ہیں ۔طبلے اور ستار کی سنگت گویا ایک طرح کی گفتگو ہے۔ اور سر اور تال کی گفتگو تو جادو جگا سکتی ہے۔امیر خسرو کون تھے یانی آپا؟ کہنے لگیں: وہ بارہ سوتریپن ص ع میں اترپردیش میں پیدا ہوئے اور بعد میں خسرو دہلوی کہلائے ۔وہ بیک وقت موسیقار، شاعراور ایک عالم تھے، نظام الدین اولیا سے تعلق خاص رکھنے والے۔ان کے روحانی اور پسندیدہ شاگرد۔ خسرو ہندوپاک کی تہذیب و ثقافت اور موسیقی کی علامت ہیں۔ عربی اور سنسکرت بول سکنے کے باوجود انہوں نے فارسی اور مقامی بولی ہندوی میں شاعری کی۔ گائکی میں خیال اور ترانہ کی طرز اور قوالی انہی کی ایجاد ہے ۔شاعر کی حیثیت سے غزل، مثنوی، قطعہ، رباعی اور دوبیت میں طبع آزمائی کی۔ ان کی بنائی ہوئی دھنیں دلوں کو تسخیر کرلیتی ہیں ۔دہلی کی سلطنت سے جڑے رہنے کے باعث انہیں شمالی ہندوستان اور موجودہ پاکستان میں زیادہ پذیرائی ملی۔ لیکن وہ بلا شبہ ایک آفاقی شخصیت تھے۔ان کی لکھی پہیلیاں، گانے اور ان کی ذات سے جڑے واقعات آج بھی ہر دل عزیز ہیں۔وہ تیرہ سو پچیس ص ع میں بہتر سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور نظام الدین اولیا کے پہلو میں دفن ہوئے۔۔۔۔جاری ہے