شکرقندی
شارق علی
ویلیوورسٹی
“سر… یہ ہوا کرتا تھا ڈاکٹر کمال کا کلینک۔”
پروفیسر رضی کے نرم گفتار اور عمر بھر میرپورخاص میں رہنے والے ڈرائیور ایوب علی نے مجھے سرگوشی میں بتایا۔
ہم گاڑی گلی کے باہر پارک کر کے پیدل نیو ٹاؤن کی اس گلی کے رش اور ٹھیلوں سے بچتے بچاتے یہاں پہنچے تھے۔
میں نے رخ موڑ کر گلی کی دوسری جانب دیکھا۔ ایک مسمار عمارت کی خاموشی میرے سامنے تھی۔ میرا دل صدمے سے نڈھال ہو گیا۔ ذہن میں موجود وہ کشادہ گلی اب بہت تنگ ہو چکی ہے۔ دونوں اطراف پھلوں اور سبزیوں کی دکانیں اور ٹھیلے ہیں، آتے جاتے لوگوں کا بے انتہا رش اور خریداروں کا شور و غل ہے۔ میں یہاں ساٹھ سال کے طویل وقفے کے بعد آیا ہوں—اپنے چار پانچ سالہ گمشدہ بچپن کو ڈھونڈنے کے لیے۔ میری نظریں اس خالی پلاٹ سے ہٹتی نہیں جہاں پرانی عمارت مسمار کی جا چکی اور نئے شاپنگ پلازہ کی بنیادیں رکھی جا چکی ہیں۔
یہ چار سالہ بچے کا گھر تھا۔ اس نے یہاں شعوری آنکھ کھولی، خواب دیکھنا اور محبت کرنا سیکھا، پہلا دوست بنایا۔ وہ گھر ایک خوشگوار یاد تھی؛ یہ خالی پلاٹ ایک اداس منظر ہے۔
ایک آئیڈیلِسٹ، جو پختہ عمر اور میسر خوشحالی کے باوجود فیشن برانڈز کے نام نہیں جانتا، لیٹسٹ ماڈلز کی گاڑیوں اور لگژری لائف اسٹائل میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، فرسٹ کلاس کا سفر اصولی طور پر غلط سمجھتا ہے، اور جس کے پاس محبت، انسانی رشتوں اور بہتر دنیا کے خواب ہی خزانے کی صورت موجود ہیں—یہ منظر دیکھ کر دکھی ہے۔
شمع بھون تقسیم سے پہلے شاید کسی متمول ہندو کی رہائش گاہ تھا یا ممکن ہے کہ یہ کوئی چھوٹا سا مندر رہا ہو۔ دیواروں پر آرایشی محرابیں اور پلاسٹر آف پیرس سے بنی ہندو دیومالائی کہانیوں کی خوشرنگ تصویریں (فریسکو) موجود تھیں جنہیں بعد میں مسلمان مالکان نے ہلکے نیلے پینٹ سے ڈھانپ دیا تھا۔ ہم بچے دیواریں کھرچ کر نیچے چھپی تصویریں دیکھ لیتے تھے۔ ہر کمرے کے فرش پر الگ الگ ڈیزائن کے اطالوی ٹائل لگے تھے۔
اس دو منزلہ اور غالباً چھ کمروں والے گھر کی سفید چھتوں پر بھی آرایشی نمونے بنے تھے۔ سامنے لال اینٹوں سے بنا صحن تھا جس کے بیچ میں کبھی فوارہ ہوا کرتا ہوگا۔ اب یہاں ایک ہینڈ پمپ لگا دیا گیا تھا جس میں سے بہت میٹھا اور پینے کے قابل پانی نکلتا تھا۔ محلے والے اور ہمارے محلے کا بہشتی امی سے اجازت لے کر اپنی مشکیں اسی نل سے بھرتا اور تقسیم کرتا تھا۔ نیچے کی منزل ہمارے استعمال کے لیے کافی تھی، اس لیے اوپر جانے کی ضرورت کبھی کبھار ہی پڑتی۔ سامنے کا دروازہ ڈاکٹر کمال کے کلینک کی جانب کھلتا اور عقب کا دروازہ پچھلی گلی میں، جہاں ڈاکٹر زبیدہ کا کلینک اور یوسف ایڈوکیٹ صاحب کا دفتر تھا۔
ڈاکٹر کمال کا کلینک—جو اب گودام بن چکا ہے—کی دوسری منزل پر میری زندگی کا پہلا دوست حامد رہتا تھا۔
حامد اور ہمارے گھر کی کھڑکیاں آمنے سامنے کھلتی تھیں۔ درمیان میں گلی کی چوڑائی حائل تھی۔ فاصلہ اتنا تھا کہ آواز تو نہ پہنچتی، مگر پتنگ بازی کے دوران ہم ایک دوسرے کو ہاتھ ضرور ہلا دیتے تھے۔
یہ پتنگ بازی بھی خوب تھی۔ بڑے بھائی ایک دو گز لمبے دھاگے کے سرے پر کاپی کے پیج کو موڑ کر باندھ دیتے۔ اسے کھڑکی سے لٹکا دیا جاتا اور دوسرا سرا، جو میرے ہاتھ میں ہوتا، جھٹک جھٹک کر اس کاغذی “پتنگ” کو ادھر ادھر سرکایا جا سکتا تھا۔ حامد بھی اسی طرح گلی کے اس پار کھڑکی میں پتنگ لیے بیٹھ جاتا۔ تیز اور تپتی دھوپ میں ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کی اجازت نہ ہوتی، مگر ہم کمرے میں بیٹھ کر کھڑکی سے یہ “پتنگیں” اڑا کر ایک دوسرے کے ساتھ دور سے کھیل سکتے تھے۔
شام ہو جاتی تو منہ ہاتھ دھو کر کبھی وہ میرے گھر اور کبھی میں اس کے گھر چلا جاتا۔ بھٹے کے بھنے دانے اور بھوبھل میں پکی شکرقندی کا مزہ میں نے پہلی بار اس کے گھر چکھا۔ اس نے پہلی بار sponge cake اور pudding میرے گھر پر کھائی۔ دونوں گھروں کے درمیان صرف ایک گلی تھی، لیکن اس نے ہمیں دنیا کے منقسم ہونے کا پہلا احساس دیا۔ پھر میں اپوا اسکول کے انگریزی میڈیم کنڈرگارٹن میں جانے لگا اور اس کا داخلہ بھرگڑی نامی سرکاری اسکول میں ہو گیا۔
ہم دونوں نے اپنی زندگی کا پہلا بندر اور ریچھ کی لڑائی کا تماشہ ایک ساتھ دیکھا۔ پہلی بار پودا بونے اور اسے درخت بنانے کی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔ 65 کی جنگ میں موناباو کی سمت جاتی بکتر بند گاڑیوں پر سوار فوجیوں کو خدا حافظ کہا۔
حامد نے مجھے مڑی ہوئی فولادی سلاخ کے ذریعے پہیہ چلانا اور کنٹرول کرنا سکھایا۔ وہ مجھ سے زیادہ توانا تھا اور کشتی میں جیت جاتا، لیکن دوڑنے میں میں اسے ہرا دیتا۔ ہم دونوں بیکری پر انڈے ڈبل روٹی لینے جاتے تو میرے بڑے بھائی کے دوست ہمیں ڈبل زردی کا انڈا تحفے میں دیتے۔ دو زردیاں دیکھ کر ہم حیران رہ جاتے اور انہیں جادوگر سمجھتے تھے۔
چند منٹ بعد میں اور ایوب علی گلی سے باہر نکلے۔ چلتے چلتے یوں لگا جیسے حامد نے ہاتھ سے اشارہ کیا ہو۔ گلی کے نکڑ پر بھوبھل کی راکھ میں بھنی شکرقندی بیچنے والا کھڑا تھا۔ میں نے ایوب علی کو گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔ ٹھیلے سے ایک شکرقندی پسند کی، نوٹ اس کے ہاتھ پر رکھا، بقایا لیے بغیر اسے حیران چھوڑے گاڑی میں لوٹ آیا۔
اسے کیسے بتاتا کہ یہ شکرقندی انمول ہے؟
