سستا جزیرہ ، بیسواں انشاء، امریگو کہانی، ویلیو ورسٹی، شارق علی
میں تیرتے تیرتے تھک گیا تو محض پانی میں ڈوبا سائیڈ بار ہاتھوں میں تھامے پانی میں سیدھا لیٹے دھیرے دھیرے پیر چلانے لگا۔ پانی کی قربت اور جسم کی بے وزنی سفر کی تھکان اور مسلسل سفر کے تناؤ کے احساس کو کم کرنے کو بہت کافی تھی۔ اورلینڈو کے اس کراے کے گھر کے پایں باغ کے سویمنگ پول میں اٹھتی گرتی لہروں کی آواز سننا سکون بخش تھا۔ تازہ ہوا، دھوپ اور پانی میں ہم سب خاصی دیر تک لطف اندوز ہونے کے بعد قریبی گروسری اسٹور سے پھل اور دیگر اشیاء ضرورت خریدنے کے لیے گھر سے نکلے۔ اورلینڈو کے اس رہائشی علاقے میں تو صرف ایک منزلہ گھروں کی لمبی قطاریں تھیں . لیکن جانے کیوں مجھے امریکہ کے سابقہ سفر کے دوران ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی بلندی سے مین ہیٹن کی بلند و بالا عمارتوں اور سمندر کا کنارہ دیکھنے کا منظر یاد آگیا۔ مین ہیٹن نیویارک شہر کا حصہ ہے۔ شہر کا یہ اہم حصہ مین ہٹن جزیرے پر واقع ہے۔ اپنی پوری تاریخ میں، مین ہیٹن خرید و فروخت کا مرکز رہا ہے. یہ پورا جزیرہ فلک بوس عمارتوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ آج مین ہیٹن کو دنیا میں رہنے کے لیے سب سے زیادہ مطلوبہ جگہوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے یہاں جائیداد کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے علاوہ یہ نیویارک اسٹاک ایکسچینج اور دنیا کے بہت سے بڑے بینکوں کا گھر ہے۔ یہ فنون لطیفہ کا بڑا مرکز بھی ہے، یہاں متعدد عجائب گھر، آرٹ گیلریاں اور تھیٹر ہیں، یہ سب کچھ اسے ہر قسم کے مزاج کے لوگوں کے لیے ایک مقبول اور مہنگا مقام بناتا ہے۔ ہم اورلینڈو کی سرسبز و شاداب اور کشادہ گلیوں کے فٹ پاتھ پر کوئی بیس سے پچیس منٹ چلے ہوں گے کے تھکاوٹ محسوس ہونے لگی۔ اس کی وجہ چمکتی ہوئی دھوپ اور پینتیس سینٹی گریڈ والی گرمی تھی۔ گروسری سٹور بہت بڑا تو نہیں تھا لیکن ہماری ضروریات کے لئے بہت کافی. واپسی میں سخت گرمی کی وجہ سے ٹیکسی سے سفر کرنے کا فیصلہ ہوا. گھر پہنچے کچھ دیر آرام کیا۔ گھر میں موجود جم اور ٹیلی وژن سے استفادہ کیا گیا۔ رات کا کھانا ذرا جلدی کھا کر ہم سب سو گئے کیونکہ اگلے دن یونیورسل اسٹوڈیو کی سیر کی مشقت کا سامنا کرنا تھا۔ میں تکیے پر سر رکھے سوچنے لگا . روایت ہے کہ مین ہٹن میں آباد مقامی لینپ قبیلے کے لوگوں نے صرف چوبیس ڈالر کی مساوی رقم کے عوض اس جزیرے کو نوآبادیات قایم کرنے والے ڈچ لوگوں کو فروخت کر دیا تھا۔ ڈچ اس علاقے کو آباد کرنے والے پہلے یورپی تھے۔ سولہ سو چھبیس میں، ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی نے مین ہٹن کا جزیرہ مقامی لینیپ لوگوں سے خریدنے کا جو سودا کیا وہ آج بھی زیربحث ہے۔ اس سلسلے میں تاریخی ریکارڈ محدود ہے، لیکن اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اس وقت کے مقامی لوگوں کے سماج میں زمین کی خرید و فروخت کا تصور یورپی ثقافت میں موجود خرید و فرخت سے یکسر مختلف تھا۔ شاید ممکن ہے یہ فروخت نہ ہو صرف ساتھ آباد ہونے کی اجازت ہو۔ یہ سودا دو مختلف ثقافتوں میں سماجی سمجھ کے تضاد کا مظہر ہے۔ ڈچ ملکیت کا اس جزیرے پر دعوہ اس سودے کے تحت منصفانہ نہیں لگتا کیونکہ یہ لین دین جبر اور استحصال کے حالات میں کیا گیا تھا۔ لینپ قبیلے کے لوگ بالآخر یورپی آباد کاری کے ذریعے اپنی آبائی زمینوں سے بے گھر ہو گئے تھے۔ اور یہ یورپی سامراجیت کا کھلا ظلم تھا۔ نیو نیدرلینڈ کی ڈچ کالونی جو بعد میں نیو یارک اسٹیٹ بنی اور نیو ایمسٹرڈیم بعد میں نیو یارک سٹی کہلایا۔ دلوں میں ہلچل مچادینے والے اس جزیرے اور بندرگاہ پر بالآخر سولہ سو چونسٹھ میں انگریزوں نے قبضہ کر تھا اور ڈیوک آف یارک کے اعزاز میں اس کا نام نیویارک رکھ دیا تھا ۔۔۔۔ جاری ہے