This is the story about Immanuel Kant, a central figure of modern philosophy. These are the words inscribed on his tomb “starry heavens above and the moral law within”
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
روشن کتبہ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریز، چوتھا انشا
رات کا کھانا ہم نے لائبریری ہی میں کھایا تھا اور اپنے کمروں میں سونے کے لیے جانے سے ذرا پہلے اپنی اپنی کتابوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ دادا جی لکھنے پڑھنے میں زیادہ مصروف ہوں تو ایسا ہی ہوتا تھا۔ دل نے کہاکچھ گفتگو ہونی چاہیے۔ میں نے ہیری پوٹر ایک طرف پٹخی اور دادا جی کی کتاب کا عنوان بہ آواز بلند پڑھا، کریٹک آف پیور ریزن۔ دادا جی فورا بات سمجھ گئے۔ مسکراتے ہوئے بولے، اس کتاب کے لکھنے والے کی کہانی ہیری پوٹر سے کم دلچسپ نہیں ۔میں متوجہ ہوکر ان کے پاس بیٹھ گیا تو بولے ۔اس زمانے کے پروشیا اور آج کے روس قصبے کالینن گراڈ میں سترہ سو چوبیس ص ع میں پیدا ہونے والا ایمونئیل کانٹ بے حد منظم انسان تھا۔ قصبے کے لوگ اس کے روز مرہ معمول سے اپنی گھڑیاں درست کرلیا کرتے تھے۔ اس نے بظاہر ایک غیر دلچسپ زندگی گزاری، نہ کبھی بیمار ہوا، نہ شادی کی اور نہ ہی کوئی قابل ذکر لمبا سفر کیا۔ اس کے باوجود وہ نسل انسانی کا ایک عظیم فلسفی ثابت ہوا۔اس زمانے کے کچھ فلسفی جوامپریسسٹ کہلاتے تھے، وہ انسانی تجربے ہی کو علم کی بنیاد سمجھتے تھے، دوسرے جو راشنالسٹ کہلاتے تھے، عقلی دلائل کو علم کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ کانٹ، جس نے اپنی ساری زندگی حقیقت حال اور انسانی ذہن کے بارے میں سوچ و بچار کرتے گزاری، ایک مختلف نتیجے پر پہنچا۔ وہ کہتا ہے کہ اصل حقیقت کی تہہ تک پہنچنا انسانی ذہن کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ہم صرف وہ حقیقت جانتے ہیں جو ہمارے ذہن کے رستے ہم تک پہنچتی ہے۔ ہمارے ذہن کا خود کار نظام حقیقت کو قابل فہم بنانے کے لیے تبدیل کردیتا ہے، انسانی ذہن حقیقت کو زمان اور مکان کا چشمہ پہن کر دیکھنے پر مجبور ہے کیونکہ یہ چشمہ ہی اس کی بینائی ہے۔ اسی لیے اصل حقیقت انسانی تجربے اور عقلی دلائل کی پہنچ سے دور رہتی ہے۔ وہ خدا کے وجود پر ایمان کو ثبوت اور عقلی دلائل کی شرط سے بالاتر سمجھتا ہے ۔ بلکہ خدا پر ایمان کو سب انسانوں کی اخلاقی ذمہ داری قراردیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ نیکی اور آفاقی اخلاقی اصول ہم سب انسانوں پر بلا تفریق لاگو ہوتے ہیں۔کانٹ اسی سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اس کی قبر کا کتبہ اس عبارت سے روشن ہے۔”زندگی میں دو چیزوں نے مجھے حیران کیا،ستاروں سے بھری کائنات، اور انسانی روح میں تابندہ آفاقی اخلاقی اصول — جاری ہے