حسن ناصر — خواب زندہ رہا
شارق علی
ویلیوورسٹی
حسن ناصر کی زندگی اُس خواب کی علامت ہے جو ظلم کے قلعوں میں لٹکایا گیا، تشدد کی صلیب پر چڑھایا گیا، مگر پھر بھی زندہ سلامت رہا۔ وہ آج بھی اُن نوجوان دلوں میں دھڑک رہا ہے جو حق اور انصاف کے متلاشی ہیں۔
1928ء میں حیدرآباد دکن کے ایک معزز اور تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوا۔ اُس کے نانا، نواب محسنالملک، مسلم تعلیم و بیداری کے علمبرداروں میں سے تھے۔ مگر حسن ناصر نے اشرافیہ کا آرام و آسائش چھوڑ کر محروم طبقات کی خدمت اور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔
علیگڑھ اور دکن کے علمی و سیاسی ماحول نے اُس کے اندر برابری، آزادی اور سماجی انصاف کا شعور بیدار کیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آ گیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (CPP) سے وابستہ ہو گیا۔ اُس کا ایمان تھا کہ آزادی صرف سیاسی نہیں بلکہ معاشی بھی ہونی چاہیے۔ 1954ء میں جب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی گئی تو وہ زیرِ زمین رہ کر مزدوروں، طلبہ اور کسانوں کی تحریکوں کو منظم کرتا رہا۔ بعد ازاں، وہ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کا سیکرٹری جنرل منتخب ہوا اور سماجی انصاف کی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا۔
1958ء کے مارشل لا نے آزادیِ رائے کا گلا گھونٹ دیا، مگر حسن ناصر جھکا نہیں۔ وہ کراچی کی غریب بستیوں میں مزدوروں کے ساتھ رہتا، اُن کے دکھ سنتا اور انہیں منظم کرتا۔ یہی اُس کا جرم ٹھہرا۔ 1960ء میں اُسے کراچی سے گرفتار کر کے لاہور قلعہ کے بدنامِ زمانہ عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا، جہاں اُس پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔
13 نومبر 1960ء کو وہ اپنے سیل میں مردہ پایا گیا۔ حکومت نے اُس کی موت کو “خودکشی” قرار دیا، مگر ہر انصاف پسند دل نے اُسے ضمیر کا بہیمانہ قتل کہا۔
جب اُس کی ماں، زہرہ عالم دار حسین، میانی صاحب قبرستان پہنچیں تو انہوں نے لاش کی شناخت سے انکار کر دیا —
“یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔”
یوں حسن ناصر بےنشان دفن کر دیا گیا۔ مگر اُس کی یاد، اُس کا عزم، اور اُس کا خواب آج بھی زندہ ہے۔
آج بھی اُس کے نام کے نعرے طلبہ تنظیموں کے جلسوں، مزدور ریلیوں اور مزاحمتی شاعری میں گونجتے ہیں — یاد دلاتے ہیں کہ ظلم کے قلعے گر جاتے ہیں، مگر انسانی عزم کبھی نہیں مرتا۔
حسن ناصر کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ سچائی کی راہ اگرچہ کٹھن ہے، مگر یہی وہ راستہ ہے جو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے روشن رہتا ہے۔
