Nationalist agenda commonly commit the crime to distort history in search of false greatness and glory. This misleads and harms the younger generation.
شکریہ۔ یہ کہانی کہتے سنتے ہم آپ یہاں تک آ پہنچے ہیں ۔ سایکلو تو یاد ہو گا آپ کو؟ ہماری ہای فیڈیلٹی لیب کا چلتا پھرتا سوپر کمپیوٹر ۔ جس کے چیسٹ پیک میں ورچویل ریالٹی سپیکس ہوتے ہیں۔ ماضی کو ری کنسٹرکٹ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی ڈیوائس۔ پروفیسر اقبال احمد سے لندن کے پس منظر میں ہماری یہ ملاقات ورچویل ریالٹی ملاقات تھی۔ ان کا انتقال تو اسلام آباد میں انیس سو نناوے میں ہو چکا ہے۔ لیکن میں اور آپ ان کی فکر کو واقعاتی حقیقت کے انداز میں بہتر سمجھ سکیں گے۔ تو پھر آیے کہانی کی جانب۔ ہیتھ رو کے ارایول لاونج میں رش معمول سے کچھ کم تھا۔ جانے اس کی کیا وجہ تھی۔ سکرین دیکھا تو معلوم ہوا ایمریکن ایئر لائن کا جہاز اترے آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے۔ گویا پروفیسر اقبال کسی بھی وقت نمودار ہو سکتے ہیں ہم تینوں ریلنگ سے لگے ان کی آمد کا انتظار کرنے لگے. زوم میٹنگ کی پچھلی ملاقاتوں کے سبب انہیں پہچاننا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ وہ گہرے نیلے تھری پیس سوٹ اور میرون ٹای میں ملبوس مختصر سامان کی ٹرالی کھینچتے باہر نکلے تو گرمجوش مسکراہٹوں اور عقیدت بھرے سلاموں سے ان کا استقبال ہوا۔ دراز قد ، باوقار ، خوش شکل اور بے حد زہین آنکھوں اور آسانی سے مسکرا دینے والی خوش مزاجی . ابتدائی تعارف کے تکلف سے برسوں کی شناسائی تک کی مسافت دو چار منٹ میں ہی طے ہو گئی۔ میں اور جیک ٹرالی پر سامان سنبھالے آگے اور پروف اور زن گفتگو کرتے ہم سے دو تین قدم پیچھے۔ انڈر گراؤنڈ اسٹیشن سے پروف کے ٹکٹ کا انتظام ہوا اور ہم روانگی کے لیے تیار کھلے دروازوں والی پکاڈلی لاین میں ساتھ ساتھ نشستوں پر بیٹھ گئے۔ کہنے لگے۔ ایمیگریشن آفیسر میرے پاکستانی خدوخال اور امریکی قومیت دیکھ کر ایک لمحے کو جھجھکا ضرور لیکن پھر فورا ہی اجازت کی مہر لگا دی ۔ میں نے پوچھا۔ قومیت اور قوم پرستی میں کیا فرق ہے؟ کہنے لگے، کسی قوم سے متعلق ہونا تو سیدھی سادھی اور نارمل سی بات ہے۔ ہم سب کی کوی نہ کوی قومیت تو ہوتی ہی ہے۔ نقصان دہ بات ہے قومیت پرستی۔ کیونکہ پھر یہ صرف شناخت کا معاملہ نہیں رہتا بلکہ شدت پسندی کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جب قوم پرست اجتماعی شناخت کی تلاش میں تاریخ سے حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ جانتے یا نہ جانتے ہوئے تاریخ کو مسخ کرنے لگتے ہیں. زن نے پوچھا۔ وہ کیسے؟ بولے تاریخی حقائق کی تلاش ایک سچا اور پر خلوص سفر ہونا چاہیے۔ جب ہم سچ کے بجائے عظمت تلاش کرنے لگتے ہیں تو سچای ہم سے دور ہونے لگتی ہے۔ قومیت پرستی میں ہماری قوم اور تمہاری قوم کی تقسیم ضروری ہو جاتی ہے۔ پھر ہم تاریخ کے سمجھنے میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتے۔ ساری عظمت ہماری قوم کے نام اور ساری تاریکی اور زلت دوسری قوم کے حصے میں۔ یہ ایک طرح سے نفرت کے سفر کا آغاز ہوتا ہے. گویا ہم سچ کو دو جانب سے مسخ کرنے کا جرم کرنے لگتے ہیں۔ خود کو عظیم اور دوسرے کو نیچا دکھانے کے جھوٹ کا جرم ۔۔۔۔ جاری ہے