چوتھی قسط
شارق علی
ویلیوورسٹی
ہیٹزنگ کے انڈر گراؤنڈ اسٹیشن سے ہم یو 4 ٹرین میں سوار ہوئے۔ ہماری منزل ویانا سٹی سینٹر کا مرکزی اسٹیشن کارل پلاٹز تھا، جو اپنی جدید طرزِ تعمیر اور مختلف داخلی راستوں پر سجے آرٹ کے خوبصورت نمونوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
کارل پلاٹز پر ٹرین سے اتر کر ہمیں ایک چھوٹی سی آئس کریم شاپ نظر ائی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور بغیر کچھ کہے اسٹراچیاتیلہ آئس کریم خرید لی۔ یہ چاکلیٹ چپس سے بھرپور تھی۔ پہلے ہی چمچ نے ہمیں آسٹریا کی تاریخی چاکلیٹ روایت کا گرویدہ کر دیا۔ اٹھارویں صدی میں پہلی بار کوکو شاہی دربار تک پہنچی اور اس نئی دریافت سے یہاں کے شاہی باورچیوں نے کمالات دکھائے۔ ویانا کے روایتی کافی ہاؤسز، مشہور زاخر ٹورٹے اور ہاٹ چاکلیٹ کی روایت بھی صدیوں پرانی ہے۔ ہماری آئس کریم بھی اسی تاریخی مٹھاس سے بھرپور تھی۔
اس شام ویانا سٹی سینٹر آنے کے دو مقاصد تھے:
- ویانا کی شاندار طرزِ تعمیر کو دن ڈھلنے سے پہلے اور پھر رات کے جادوئی پس منظر میں دیکھنا۔
- اگلے دن ہالشٹٹ روانگی کے مقام کو پہلے سے دیکھ لینا تاکہ اگلی صبح ہمیں کوئی دشواری نہ ہو۔
سینٹ چارلس چرچ (کارلس کرِشے)
کارل پلاٹز انڈر گراؤنڈ ٹرین اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی ہم سینٹ چارلس چرچ کے سامنے کھڑے تھے۔ یہ چرچ 1737 میں شہنشاہ چارلس ششم نے طاعون کی وبا کے بعد تعمیر کرایا تھا۔ اس کی طرزِ تعمیر باروک طرز کے ساتھ یونانی اور رومی نشاۃِ ثانیہ کے اثرات کا حسین امتزاج ہے۔ اس کی خاص پہچان اس کا شاندار سبز گنبد ہے جو آسمان کے ساتھ ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے۔
چرچ کے سامنے دو بلند ستون کھڑے ہیں، جن پر سینٹ چارلس بورو میو کی زندگی کے مناظر کندہ ہیں۔ یہ ستون دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔ چرچ کے سامنے بڑا سا فوارہ شام کی روشنیوں میں جھلملا رہا تھا، اور ارد گرد چھوٹا سا باغ تھا جس میں پیدل چلنے اور سائیکل کے لیے مخصوص راستے تھے۔ ہم ان راستوں کے کنارے بینچوں پر بیٹھ گئے، جہاں ہمارے ساتھ بہت سے مقامی لوگ اور سیاح بھی موجود تھے۔
یہ ایک بارونق چوک کا منظر تھا، جس کے پس منظر میں چرچ کی بلند و بالا عمارت کھڑی تھی۔ قریب ہی فری لانس موسیقار اپنی دھنوں میں محو تھے، اور ہم دن کے ڈھلنے اور رات کے پھیلنے کے اس یادگار منظر کو جیتے رہے۔
ویانا کی روشنیاں اور اوپیرا ہاؤس
جب رات گہری ہو چلی اور روشنیوں نے ویانا شہر کے گلی کوچوں میں اپنا جادو جگا لیا، تو ہم بینچوں سے اٹھے اور عالمی شہرت یافتہ اوپیرا ہاؤس کی جانب چلنے لگے۔ سینٹ چارلس چرچ کا روشنیوں میں نہایا شاندار گنبد اب ہمارے پیچھے تھا، اور ہم ویانا کے تاریخی مرکز کی جانب بڑھ رہے تھے۔
مرکزی شہر کی روشن شاہراہیں گویا تاریخ کے سنہرے اوراق تھیں۔ بلند و بالا عمارتیں دیوالی کے چراغاں کی مانند جگمگا رہی تھیں، جیسے وہ بے جان نہ ہوں، بلکہ ماضی کے عظیم معماروں اور فنکاروں نے روشنی اور سائے کا کوئی رقص تخلیق کیا ہو۔
بیشتر عمارتوں میں باروک طرزِ تعمیر نمایاں تھا، جس کی خصوصیات دلکش نقش و نگار، بلند و بالا گنبد، عظیم الشان ستون اور فنکارانہ کشادگی ہیں۔ یہی طرزِ تعمیر ویانا کی پہچان ہے، جو سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں یورپ کے اس شاہی شہر کی شان و شوکت کی علامت بن چکا تھا۔
یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہر عمارت ایک داستان سنا رہی ہو، ہر کھڑکی، ہر ستون اپنی کہانی بیان کر رہا ہو۔
ویانا کا حسن صرف طرزِ تعمیر میں نہیں بلکہ اس کی روشنیوں کی منفرد آرائش بھی اس شہر کو ایک جادوئی پس منظر فراہم کرتی ہے۔ یہاں روشنی اور تاریکی کی ہم آہنگی ایک مسحور کن ماحول پیدا کرتی ہے، جو دیکھنے والوں پر دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔
ہم گوگل میپ کی مدد سے ویانا کی گلیوں اور شاہراہوں میں چہل قدمی کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔ اور اب اوپیرا ہاؤس کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔۔۔
(جاری ہے…)