In 1857 a large part of the native army in undivided subcontinent rebelled against British Raj. Unfortunately, without success. The impact was political as well as psychological
جنگ آزادی ، سامراج ، انشے سیریل ، دسواں انشا ، ویلیوورسٹی ، شارق علی
سامراجی انداز حکومت سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ میں نے پوچھا. پروف بولے . برطانوی طرز کی بلند و بالا عمارتیں اور ان کے سامنے وسیع و عریض میدان یا سبزہ زار ، شاندار لباس اور امیرانہ طرز زندگی اور دفتری نظام ایسا کہ مقامی لوگ انگریز کو نہ صرف حاکم بلکہ دیوتا سمجھنے لگیں . کبھی موقع ملے تو میوزیم میں جاکر ان برطانوی امپیریلسٹ لوگوں کی تصویریں دیکھو. آرام و آسائش اور چہروں پر حکمرانی کا اطمینان اور سکون۔ ایسی تصویروں کا عنوان ہونا چاہیے بے حسی اور فراڈ . کرائے کے فوجی اور کمزور راجہ مہاراجاؤں کے ساتھ کئے ہوئے معاہدوں کا فراڈ جسے مقامی تیار کردہ بیوروکریسی نے استحکام دیا. میوزیم میں لگی اس تصویر کو دیکھو جس میں کم لباس دبلا پتلا مقامی ہاتھ گاڑی کھینچتے ہوے بے حال ہو رہا ہے اور تخت نشینی کے سے انداز میں شاندار لباس پہنے انگریز بیٹھا مسکرا رہا ہے. ایسے طور طریقے حکمرانی کو تقویت دیتے تھے اور سادہ لوح ہندوستانی ذہن اسے طاقت کی علامت سمجھ کر محکوم رہنے پر مجبور تھے۔ سوفی نے بانو امی سے پوچھا . بچپن میں کونسی کہانیاں سنیں آپ نے ؟ بولیں . ہم سونے سے پہلے کہانی کی ضد کرتے تو والد اکثر اکبر بادشاہ کے قصے سناتے . جلیانوالہ باغ اور بھگت سنگھ کا قصہ بھی انہیں سے سنا. طبیعت صوفیانہ تھی اس لئے اکثر بختیار کاکی اور نظام الدین اولیا کا ذکر بھی رہتا . جب پاکستان بنا تو ایک بار ان کے ساتھ کراچی کے جہانگیر پارک جانا ہوا . ہمارے لئے تو وہ ایک تفریح کی جگہ تھی لیکن میاں نے بینچ پر بیٹھ کر فاتحہ پڑھی. پھر بتانے لگے کے اٹھارہ سو ستاون میں کراچی کی اکیسویں انفنٹری کے مقامی سپاہیوں نے گائے اور سور کی چربی کے بنے کارتوسوں کو چبا کر استعمال کرنے سے انکار کرکے بغاوت کی تھی. جب انگریز نے بغاوت پر قابو پالیا تو باغی سپاہیوں کو یہیں جہانگیر پارک میں توپوں کے سامنے باندھ کر ان کی گردنیں اڑا دی گئی تھی. ساتھ لگی ایمپریس مارکیٹ تو تیس برس بعد ملکہ وکٹوریہ کے جشن پر کراچی کے لوگوں کو خوش کرنے اور رعب میں رکھنے کے لئے تعمیر کی گئی. خوف اور لالچ انگریز نے حکمرانی کے لیے دونوں ہتھیار استعمال کئے. کچھ اور تفصیل جنگ آزادی کی ؟ رمز نے کہا . پروف بولے . انیسویں صدی کے وسط میں لکھنؤ ایک سحر انگیز شہر تھا۔ انگریز سامراج نے اس شہر میں ایک پر آسائش اور آسودہ زندگی گزاری. لیکن پھر اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کسی قیامت کی طرح نازل ہوئی . مقامی سپاہیوں کے سینوں میں برسوں سے بھرا غصّہ اپنے انگریز افسروں کی قتل و غارتگری کا سبب بنا۔ مقامی ملازموں نے اپنے آقا انگریز خاندانوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔ یوں انگریزوں کے حساب سے بغاوت اور ہندوستانی تاریخ کے حساب سے پہلی جنگ آزادی کا آغاز ہوگیا۔ یہ جنگ جس مقام پر اپنے عروج کو پہنچی وہ تھی لکھنو کے برٹش ہیڈکوارٹر کی عمارت . یہ وہ جگہ ہے جہاں سامراجیت اپنی جڑوں تک لرز کر رہ گئی تھی۔ یہاں تین ہزار انگریز اور ان کی حمایتی مقامی فوج کو آٹھ ہزار باغیوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ ان درودیوار پر آج بھی جنگ آزادی کی جدوجہد کی تاریخ رقم ہے. لکھنؤ کی یہ شاندار عمارت تعمیر کرنے کا مقصد تو مقامی لوگوں کو حکمرانی کے رعب سے اپنے قابو میں رکھنا تھا لیکن یہی درودیوار خود انگریزوں کے لئے ایک قید خانہ اور اذیت خانہ ثابت ہوئے. یہ محاصرہ کئی دنوں تک جاری رہا اور تقریبا روزانہ دس انگریز جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے. آج بھی ان دیواروں پر توپوں کے گولوں اور گولیوں کے نشان صاف طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ قریبی موجود بینکوٹ ہال کو کہ جس میں کبھی موسیقی اور رقص کی محفلیں سجا کرتی تھیں محاصرے کے دوران ہسپتال میں تبدیل کردیا گیا تھا . یہ سارا علاقہ جو کبھی حکمرانی کی علامت تھا موت کے خوف سے لرزنے لگا تھا . غلاظت اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والی وبائی بیماری بہت سے لوگوں کے لئے جان لیوا ثابت ہوئیں اور سامنے کے سر سبز باغوں میں ہر طرف لاشیں بکھر کر سڑنے لگیں ,کالرا کی وبا پھوٹ پڑی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی مریضوں کی خدمت پر مامور کر دیا گیا —— جاری ہے