Skip to content
Home » Blog » تاریخ کا لمس، اندلس کہانی: دوسری قسط

تاریخ کا لمس، اندلس کہانی: دوسری قسط

  • by

تاریخ کا لمس، اندلس کہانی: دوسری قسط

تحریر: شارق علی
ویلیوورسٹی

القصر محل کی پُرہیبت دیواروں کے ساتھ چلتے ہم ایک تنگ مگر خوشنما گلی میں داخل ہوئے۔ پتھروں کے فرش والی یہ گلی اپنی ہزار سالہ تاریخ کے لمس کو آج بھی سنبھالے ہوئے تھی۔ مغرب کے وقت کا جھٹپٹا القصر کی دیواروں پر اپنے بازو پھیلا چکا تھا۔

مقامی اور غیر مقامی سیاحوں کی چہل پہل سے سارا منظر دلکش دکھائی دیتا تھا۔
ہم اس گلی کے آخر میں ایک عربی ریسٹورنٹ تک جا پہنچے۔ اس کا نام تھا ریستوران المدینہ۔
ٹرپ ایڈوائزر ایپ پر اس ریستوران کی بہت تعریف کی گئی تھی، خاص طور پر سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کے روایتی کھانوں کے حوالے سے۔
اندر داخل ہوئے تو ریسٹوران کا ماحول کسی خلیجی شہر کے ریستوران جیسا تھا۔ دیواروں پر لٹکی خلیجی پینٹنگز، چھت سے لٹکی قندیل نما روشنیاں، اور بیک گراؤنڈ میوزک میں چھلکتا خلیجی رنگ۔

مینو دیکھا تو لبنانی شاورما، سعودی کبسہ، فلافل اور حمص جیسے مشہور عربی پکوانوں کے نام جگمگا رہے تھے۔

ہم نے ایک خاص ڈش کا انتخاب کیا جس میں نرم و لذیذ چکن کے چھوٹے ٹکڑوں کے ساتھ مختلف سبزیاں ہم آہنگ کر کے دھیمی آنچ پر پکائی گئی تھیں۔
نہ ہونے کے برابر ہلکے مصالحے کے دھیمے پن اور ذائقے کے اعلیٰ معیار نے ہمیں دیارِ عرب کے کوچہ و بازار میں پہنچا دیا۔
ہم بڑے سکون اور لطف کے ساتھ کھانے سے انصاف کرتے رہے۔

بل کی ادائیگی اور اچھے ریویو کا وعدہ کر کے ریسٹوران سے باہر نکلے اور القصر کی دیواروں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے قریبی واقع مشہور چوک پلازا دل تری اونفو تک پہنچے۔
یہ چوک اپنے سنگِ مرمر کے مجسمے امیکولیٹا کنسپشن مونومنٹ کی وجہ سے مشہور ہے، جو حضرت مریمؑ کی شبیہ پر مبنی ہے۔
یہاں کے بینچز پر اکثر مقامی لوگ اور سیاح سستانے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب رات ہر طرف اپنے بازو پھیلا چکی تھی۔
چوک پر لگی خوبصورت انداز کی روشنیاں ایک خوابناک منظر پیش کر رہی تھیں۔
ہم مریم مقدس کے مجسمے کے ساتھ ہی پڑی بینچوں میں سے ایک پر بیٹھ گئے۔

ہمارے سامنے ایک خوبصورت شاپنگ سینٹر تھا، جس کی ساری دکانیں بند ہو چکی تھیں، لیکن نیون سائن اب بھی روشن تھے۔
ہمارے عقب میں تاریخی عمارت کو تبدیل کر کے بنایا گیا پانچ ستاروں والا ہوٹل تھا۔

اس پرسکون ماحول میں ہم کچھ دیر کی خاموشی سے لطف اندوز ہوئے۔
ہوٹل واپسی کے لیے اٹھنے لگے تو احساس ہوا کہ اب مزید بیس منٹ پیدل چلنے کی ہمت نہیں۔
اوبر ایپ سے ٹیکسی منگوائی گئی اور اپنے ہوٹل کی جانب روانہ ہو گئے۔
آج ہم جلدی سونا چاہتے تھے، کیونکہ کل صبح ہمیں قرطبہ کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔
ہوٹل پہنچ کر خود کو نیند کے سپرد کر دیا۔

صبح الارم نے سات بجے ہمیں جگایا۔
معمولات اور ہوٹل کے ناشتے کے بعد بیگ پیک ڈالے اور ہوٹل دے پارک کے سامنے واقع طے شدہ چوک پر پہنچے۔

کچھ دیر بعد کچھ ہماری ہی نوعیت کے بہت سے سیاح وہاں جمع ہونا شروع ہو گئے۔
ٹورزم کمپنی کے دو باوردی نمائندگان نے ہمیں خوش آمدید کہا، پہلے سے خریدے ہوئے ہمارے ٹکٹ چیک کیے اور ہمیں متعلقہ جگہ پر کھڑے ہونے کی تاکید کی۔
یہ دونوں حضرات کاروباری شائستگی کی بھرپور مثال تھے، جو پورے یورپ بھر میں عام دکھائی دیتی ہے۔
کچھ اندازہ ہوا کہ اسپین کی سیاحت کی صنعت کتنی مضبوط اور منظم ہے۔

کچھ دیر بعد، ایک لگژری کوچ آ گئی۔
ڈرائیور ایک خاتون تھیں۔
ان کا نام تو یاد نہیں رہا، مگر ان کی مہارت اور خود اعتمادی اب تک یاد ہے۔
وہ مسافروں سے بھری بڑی سی لگژری کوچ کو سلائی مشین جیسی آسانی سے چلا رہی تھیں۔

کوچ کے مسافروں میں تقریباً آدھے مقامی اور آدھے غیر ملکی سیاح سوار تھے۔
ہمارے برابر ایک سن رسیدہ لیکن بہت خوش مزاج امریکی جوڑا بیٹھا تھا۔
ٹم کسی اسکول میں فزیکل کوچ رہ چکے تھے۔ اپنے کریئر کے دوران کچھ اولمپک کھلاڑیوں کو بھی تربیت دے چکے تھے۔
پرمزاح اور نرم لہجہ گفتگو ان کی بلند و بالا قامت اور شخصیت پر خوب جچتی تھی۔
ان کی بیگم ویلری ریٹائرمنٹ سے پہلے ایک اسکول میں بچوں کو فرانسیسی زبان پڑھاتی تھیں۔

ایک اور سیاح جوڑا، جو جنوبی بھارت سے تعلق رکھتا تھا، ہمارے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔
کم گو مگر خوش اخلاق۔ ان سے بات چیت انگریزی ہی میں ہوئی کیونکہ جنوبی بھارتی ہونے کے ناتے وہ تلگو زبان بولتے تھے اور ہندی سے نابلد۔

کوچ شہر کے چند مشہور ہوٹلوں کے سامنے رکتی اور چند مزید مسافر سوار ہوتے۔
پھر ہماری کوچ سیوائل کی حدود سے نکل کر مضافاتی علاقوں میں داخل ہو گئی۔

راستے میں سیوائل کی مضافاتی بستیوں جیسے سان خوان دے اسنالفاراچے، توماریس اور کاماس کے پاس سے گزرنا ہوا۔
یہ علاقے جدید اور روایتی طرزِ تعمیر کا حسین امتزاج محسوس ہوئے۔
رہائشی بستیوں کے ساتھ شاپنگ سینٹرز اور سرسبز پارک بھی موجود تھے۔

پھر منظر بدل گیا اور ہم اندلس کے روایتی دیہی علاقوں میں داخل ہو گئے۔
دور تک پھیلے زیتون کے باغات، انگور کی بیلیں اور لہراتے سبز کھیت قدرتی خوبصورتی کا منظر پیش کرنے لگے۔
اس سرزمین کی شادابی مسلمانوں کا احسان کبھی نہ بھلا سکے گی۔
اس لیے کہ مسلمانوں نے آٹھویں صدی میں یہیں علمِ زراعت کا انقلاب برپا کیا تھا۔
مسلمان ماہرینِ انجینئرنگ نے یہاں نہری نظام، آبی چرخیاں اور قناتوں کا جال بچھایا تھا، جس سے بنجر زمینیں سرسبز کھیتوں میں بدل گئی تھیں۔
زیتون، بادام، گندم اور ترشاوہ پھلوں یعنی لیموں، موسمبی، سنگترے کی کاشت نے اندلس کو یورپ کا زرعی مرکز بنا دیا تھا۔

ان دنوں کی ثقافتی جدت پسندی اور کی گئی محنت کے اثرات آج بھی اس خطے کے مناظر میں، کم از کم مجھے، صاف دکھائی دیے۔
ہماری کوچ پرسکون انداز میں آگے بڑھ رہی تھی اور ہم اپنی منزل کارمونا پہنچنے والے تھے۔ مسلمانوں کا قرمونہ… جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *