SUBSCRIBEگھانس پھوس کے چھپر سے ڈھکی اس دوکان کے نیچے پراڈکٹ ڈسپلے کے لیے ایک ٹھیلا کھڑا کیا گیا تھا۔ سبز ناریلوں کا اوپر تلے ڈھیر کسی انتخابی جلسے کی ٹھونس ٹھانس سے ملتا جلتا تھا۔ اپنی پسند اور سوجھ بوجھ کے مطابق ناریل پسند کیجیے اور دوکاندار کو تھما دیجیے۔ کچھ سادہ دل محض خوش شکلی کو معیار بنا کر اور گھاگ لوگ اسے کان کے قریب لا کر ہلا جلا کر اندر موجود پانی کی مقدار کا اندازہ لگا کر دوکاندار کو ناریل تھماتے۔ پھر وہ انتہای معصوم صورت دھوتی پوش جس کے ہاتھ میں بے حد خطرناک تیز دھار والی سامنے سے مڑی ہوی لمبے خنجر نما مشیٹی تھی، ایک یا دو بے رحم وار سے ناریل کا سر قلم کر کے سوراخ بناتا۔ اور سٹرا ڈال کر گاہک کو تھما دیتا۔ میں نے پروفیسر سالک اور دوکاندار کی مشترکہ پسند کے ناریل کے دو تین خوش زایقہ گھونٹ لئے۔ پورے جسم میں تروتازگی کی ایک لہر سی دوڑ گئی ۔ پھر دونوں کی منتظر نگاہوں کی طرف دیکھتے ہوئے تعریفی انداز میں سر ہلایا اور ایک دو توصیفی جملے کہے تو وہ خوش ہو گئے۔ وہیں پتہ چلا کے سب سے زیادہ مزیدار اور غذائیت بخش پانی پانچ سے سات مہینے کے کچے ناریلوں میں ہوتا ہے۔ پھر یہی پانی سوکھ کر کھانے کے قابل ناریل میں تبدیل ہونے لگتا ہے۔ روتھ نے بہادری سے کام لیتے ہوے دو گھنٹے کے بعد ہونے والے لنچ کا ارادہ فوری طور پر ملتوی کر دیا اور دو ناریل اٹھا لیے۔ وہ وزن کم کرنے کے مشن پر تھی۔ اس کا کہنا تھا کے فیٹ اور کیلوریز کم ہونے کے باوجود یہ پانی بھوک کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ یوں لنچ باآسانی مس کیا جا سکتا ہے۔ منیرہ رحمان نے پینے کے علاؤہ ایک بوتل ناریل کا پانی اپنے بیگ میں بھی رکھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ پانی باقاعدگی سے لگانے سے جلد تروتازہ اور جھریوں سے محفوظ رہتی ہے۔ پھر میں اپنا ناریل ہاتھ میں تھامے درختوں کے جھنڈ سے گزر کر میدان میں کرکٹ کھیلتے بچوں کے نزدیک جا کھڑا ہوا۔ وکٹ کیپر نے لنگی مضبوطی سے لپیٹی ہوئی تھی۔ کمر سے اوپر وہ لباس سے آزاد اور پسینے میں شرابور تھا۔ کہتے ہیں مذہبی عقیدت کے بعد دوسرے نمبر پر جو عقیدت پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے عوام کے دلوں پر راج کرتی ہے وہ ہے کرکٹ۔ بنگلہ دیش کے کسی نامعلوم گاؤں کا یہ چھوٹا سا مٹیالا میدان اور اس میں کھیلتے بچے اس عقیدت کا بھرپور ثبوت پیش کر رہے تھے۔ ٹوٹا پھوٹا بیٹ، بانس کی گڑی وکٹیں، ٹینس بال اور ناہموار مٹیالی پچ کی بے سروسامانی ان بچوں کے جوش و خروش کے سامنے بالکل بے بس تھی۔ ان کے پاس لڑکپن کا والہانہ پن تھا۔ ایسا ولولہ تو لارڈز میں بھی کبھی کبھار ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ دوسرے سرے پر فاسٹ بولر تھا جو نارنجی ٹی شرٹ اور جین کو کاٹ کر بناے جانگیے میں ملبوس تھا۔ اوور شروع کرنے سے پہلے اس نے اپنی ٹی شرٹ اتار کر امپایر کے حوالے کی اور ننگے پاؤں برق رفتار بولنگ کا مظاہرہ کرنے لگا. بیٹسمین جس نے لنگی کے علاؤہ لارنس آف اریبیا انداز کا صافہ سر پر لپیٹ رکھا تھا بلے بازی کے جوہر دکھانے لگا۔ فیلڈروں کی پر جوش بنگالی چیخ وپکار ایک کانٹے کے میچ کا کامیاب تاثر پیدا کر رہی تھی۔ شاید اسی جوش و خروش کا فیضان ہے کہ پچھلے چند برسوں میں بنگلہ دیش نے عالمی کرکٹ میں اپنا نام بنا لیا ہے۔ جس طرح پاکستان کے شہر سیالکوٹ نے دنیا بھر میں فٹ بال بنانے میں عالمی شہرت حاصل کی ہے اس طرح بنگلہ دیش کے کئی قصبے اعلیٰ معیار کے کرکٹ بیٹ بنانے میں دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ اوپا ضلع میں واقع بینا نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں اس حوالے سے اب پوری دنیا میں مشہور ہو چکا ہے۔ یہ گاؤں جس دریا کے کنارے پر واقع ہے وہاں دنیا کے اعلی ترین ولو درختوں کے جنگل ہیں۔ ان ولو درختوں کی لکڑی سے تراشے بیٹ جب بینا کے ماہر کاریگروں کی مہارت سے گلے ملتے ہیں تو بھرپور سٹروک کا جادو جاگتا ہے۔ آج کل کرکٹ کی دنیا اس بنگالی جادو سے سحر زدہ ہے۔۔۔ جاری ہے
Thanks for your personal marvelous posting! I
definitely enjoyed reading it, you can be
a great author.I will always bookmark your blog and may
come back someday. I want to encourage you to continue your great writing, have a nice day!