This is the story of a young revolutionary Bhagat Singh who shaped the base of a grand national movement for the freedom of sub continent from the British empire. An unsung hero of India and Pakistan!
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
انقلاب زندہ باد، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، آٹھواں انشا
یانی آپا کے کالج میں الیکشن تھا اور وہ، ان کی سہیلیاں اور میں انتہائی مصروف ۔ راتوں کو دیر گئے تک جاگ کر پوسٹر بنانا، پمفلٹ لکھنا اور خوب ہنگامہ کرنا۔ روز نئے نئے الفاظ سننے کو ملتے۔ سماج ، شعور، طبقاتی کشمش وغیرہ۔ اس دن پوسٹرپرخوش خطی کا کمال دکھاتے ہوئے میں نے پوچھا۔ انقلابی کون ہوتا ہے یانی آپا؟ گرم کوفی کا گھونٹ لیتے ہوئے بولیں ۔آج کل انقلابی ہونا فیشن بن کر رہ گیا ہے۔ سچ پوچھو تو سچا بھگت سنگھ دور دور تک نظر نہیں آتا۔ پھر میں نے برابر کے صوفے پر دھم سے دراز ہوتے ہوئے پوچھا۔ یہ بھگت سنگھ کون تھا بھلا؟ وہ بولیں ۔ایک سچا انقلابی اور ہند و پاک کا ایک بھولا بسرا ہیرو۔ انگریزوں سے آزادی کے لیے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگانے والا۔ وہ انیس سو سات میں موجودہ پاکستانی پنجاب میں پیدا ہوا تھا۔اور صرف تئیس سال کی عمر میں انیس سو اکتیس میں انگریزوں نے اسے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ لیکن کیوں؟میں نے پوچھا۔ وہ ایک آزاد روح تھا ممدو ۔برصغیر کے تمام لوگوں کے لیے آزادی پر مصر اور گاندھی جی سے اختلاف کرتے ہوئے مسلح جد و جہد پر تیار۔ وہ بچپن ہی سے ہر دلعزیز، ذہین اور قائدانہ صلاحیت رکھتا تھا۔ بارہ سال کی عمر میں وہ انیس سو انیس میں ہونے والے جلیانوالہ باغ کے سانحے کے مقام کی بے گناہ لہو رنگ مٹی بوتل میں بھر کر گھر لے آیا تھا۔ اس پر روز پھول چڑھانے، اسے سلامی دینے کے لیے۔ طے شدہ شادی کی رات وہ گھر سے بغیر بتائے جاتے ہوئے اپنے خط میں لکھتا ہے ۔میری زندگی کا مقصد ہندوستان کی آزادی ہے، ذاتی خوشیوں کا حصول نہیں۔ میں اپنی ذاتی زندگی قوم کی آزادی پر قربان کرتا ہوں ۔پھر وہ نیشنل کالج لاہور، جو اس زمانے میں انقلاب کا گڑھ تھا، کا ایک شعورمند، نڈر طالب علم اور ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن کا اہم اورمتحرک رکن بن گیا۔ پہلے تو وہ گاندھی جی کی پر امن سول نافرمانی کا پر جوش حمایتی رہا لیکن جلد ہی اسے یقین ہوگیا کہ آزادی صرف ہتھیار اٹھا کر ہی حاصؒ کی جاسکتی ہے۔ پھر اسی مسلح جد و جہد کے دوران وہ انگریز دستور ساز اسمبلی پر بم پھینکنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ عدالتی بیان میں وہ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ بہروں سے اونچی آواز میں بات کی جاتی ہے۔ ہمارا کیا ہوا دھماکہ بہ آواز بلند انگریزوں سے یہ کہتا ہے کہ ہندوستان چھوڑ دو۔ آزادی اب ہمارا مقدر ہے ۔پھانسی کی رات وہ اور اس کے ساتھی زنجیریں پہنے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے آئے اور بلا خوف و خطرایک ایک کرجام شہادت نوش کیا۔ لاشوں کو جلا کر راکھ ستلج میں بہادی گئی۔ — جاری ہے
شارق علی