Skip to content
Home » Blog » اندلس کہانی: پہلی قسط – سیوائل یا اشبیلیہ

اندلس کہانی: پہلی قسط – سیوائل یا اشبیلیہ

  • by

اندلس کہانی: پہلی قسط – سیوائل یا اشبیلیہ

تحریر: شارق علی
ویلیوورسٹی

ایزی جٹ کا بوئنگ جہاز فضا میں مستحکم اور بلندی پر محوِ پرواز تھا۔ ہم دوپہر تقریباً بارہ بجے لندن سے اسپین کے شہر سیوائل کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ وہی شہر ہے جسے مسلمانوں کے سنہری دور میں “اشبیلیہ” کہا جاتا تھا۔

آٹھویں صدی کے آغاز میں مسلمان موجودہ سپین (یعنی مسلمانوں کا اندلس) میں داخل ہوئے اور تقریباً آٹھ سو سال تک یہاں علم، فن، تہذیب اور رواداری کی حکمرانی قائم رہی۔ 711ء سے 1492ء تک مسلمانوں کی حکومت نے نہ صرف اسپین بلکہ موجودہ پرتگال کے کئی علاقوں کو بھی اپنے زیرِ اثر رکھا۔ قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ اور طلیطلہ جیسے شہر علم و حکمت کے مرکز بنے، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے اور ترقی کرتے رہے۔

ہم اس سفر کہانی میں موجودہ سپین کے شہر سیوائل، کارمونہ اور کورڈوبا یعنی اشبیلیہ، قرمونہ اور قرطبہ کے سفر کا احوال رقم کریں گے۔ آپ اس تحریر کے حوالے سے میرے ساتھ شریکِ سفر ہیں۔ خوش آمدید۔

اندلس کہانی میں روزمرہ سیاحتی تفصیل بھی ہوگی، لیکن ساتھ ہی میری کوشش ہوگی کہ ہم اندلس کے سنہری دور سے کچھ تاریخی شعور بھی حاصل کریں۔ ماضی کے دریچوں میں جھانک کر، کچھ جلیل القدر مفکروں کے کام سے سیکھنے کی جستجو بھی شامل ہوگی۔

تاریخ محض جنگوں، فتوحات اور تلواروں کی جھنکار کا نام نہیں، بلکہ تاریخ کے محسنین وہ فکر انگیز شخصیات ہیں جنہوں نے علم و فہم اور انسان دوستی کو فروغ دیا۔ اس سفر کہانی میں ایسے ہی چند بلند پایہ کرداروں کا ذکر ہوگا جن کی فکر آج بھی انسانی شعور کے آسمان پر ستاروں کی مانند جھلملا رہی ہے۔ ابنِ رشد، عقل و وجدان کا ہم آہنگ پیامبر، اور ابنِ خلدون، انسانی معاشرت اور تاریخ کا نبض شناس۔

لندن سے ہماری پرواز دن کے بارہ بجے روانہ ہوئی، اور وقت کے دو گھنٹے کے فرق کے ساتھ تقریباً چار بجے شام ہم سیوائل کے ہوائی اڈے پر اُترے۔ جہاز سے باہر نکلتے ہی گرم، خشک ہوا کے جھونکے نے ماتھے کو چھوا۔ ایسا لگا گویا سکھر ایئرپورٹ سے باہر آتے ہوئے کسی پرانی یاد نے لپٹا مارا ہو۔ لمحے بھر کو محسوس ہوا جیسے یہ سیوائل نہیں، حیدرآباد یا سکھر جیسے کسی سادہ مگر صاف ستھرے ایئرپورٹ کا رن وے ہے۔

چھوٹا سا ایئرپورٹ نہایت منظم انداز اور خوش اسلوبی سے اپنے معاملات نمٹا رہا تھا۔ بغیر کسی بس کے ہم سیدھا طیارے کی سیڑھیوں سے اتر کر، فرش پر بنے نشانات کی پیروی کرتے ہوئے پیدل امیگریشن تک جا پہنچے۔ نہ ہجوم تھا نہ بدنظمی۔ پاسپورٹ کنٹرول اور بیگیج کی کارروائی خوشگوار انداز میں مکمل ہوئی۔ کچھ ہی دیر میں اندازہ ہو گیا کہ مقامی لوگ خاصے گرمجوش، خوش مزاج اور میل جول پسند کرنے والے ہیں۔

کچھ ساتھ کام کرنے والے ہسپانوی دوستوں سے یہ بات پہلے ہی معلوم تھی کہ یہاں کی طرزِ زندگی سادہ مگر جمالیاتی ذوق سے بھرپور ہے۔ کھانے پینے اور فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، اور یہی زندگی کی خوبصورتی کا محور سمجھا جاتا ہے۔

ایئرپورٹ سے باہر آ کر ٹیکسی قطار میں سب سے آگے کھڑی ہوئی ٹیکسی میں سوار ہو گئے۔ پتہ بتایا تو ٹیکسی ڈرائیور ہمارے ہوٹل Catalonia Santa Justa سے بخوبی واقف نکلا۔ ہوٹل پہنچے تو استقبالیہ عملے نے خوش دلی سے خیر مقدم کیا۔ ہوٹل بہت بڑا تو نہیں تھا، لیکن ہر لحاظ سے آرام دہ اور مکمل سہولیات سے آراستہ۔ کشادہ اور صاف ستھرے کمروں کی آرائش میں نفاست نمایاں تھی۔

سامان کمرے میں رکھ کر اور کچھ آرام کر لینے کے بعد ہم پیدل ہی قریبی بازار کی جانب چلے۔ مقامی دکانوں سے کچھ پھل، ڈرائی فروٹس اور پانی کی بوتلیں خریدی گئیں تاکہ کمرے میں کچھ بنیادی چیزوں کی سپلائی مہیا رہے۔

ہم مقامی بازار کی ایک دلکش دکان میں داخل ہوئے جہاں مقامی پھلوں اور سبزیوں کی بہار اپنے عروج پر تھی۔ ہسپانیہ کا موسم زراعت کے لیے بہت سازگار ہے۔ یہاں خاص طور پر زیتون، انگور، مالٹے، سیب اور بادام کی پیداوار دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اسپین یورپ کے سب سے بڑے زرعی برآمد کنندگان میں شمار ہوتا ہے۔

گھریلو اور روزمرہ خریداری کمرے میں رکھ کر، ریسپشنسٹ کے مشورے کے مطابق ہم پیدل ہی شہر کے مرکز یعنی سٹی سینٹر کی جانب روانہ ہوئے۔ ہوٹل سے سٹی سینٹر کا فاصلہ دس سے پندرہ منٹ کا ہو گا۔ پھر ہوٹل دی پارکو کے سامنے وہ مقام دیکھا جہاں سے اگلے دن قرطبہ (Cordoba) جانے کے سفر کے لیے ہمیں کوچ پکڑنا تھی۔

یہ مشن سر کر لینے کے بعد، سٹی سینٹر کی گلیوں میں آوارہ گردی کا مقصد ایک تو شہر کی فضا اور معاشرت کا مشاہدہ کرنا تھا، اور دوسرا کسی نفیس سے ریسٹورنٹ میں رات کا کھانا کھانا بھی۔ ہم ٹرپ ایڈوائزر اور گوگل میپ کی مدد لیتے ہوئے، گلیوں در گلیوں ٹہلتے ہوئے الکزار محل کے قریب ہی واقع ایک روشن اور پُررونق عربی ریسٹورنٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، جس کے باہر واضح طور پر Halal لکھا ہوا تھا۔

۔۔۔ جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *