Skip to content
Home » Blog » اسکانی واک اور ویانا کی رات — آسٹریا کہانی

اسکانی واک اور ویانا کی رات — آسٹریا کہانی

  • by

گیارہویں قسط

شارق علی
ویلیوورسٹی

کوچ اسٹیشن سے نکل کر خمدار پہاڑی راستے پر روانہ ہوئی۔ کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد کوچ سالزبرگ بان کے کیبل کار اسٹیشن کے باہر جا کر رُک گئی۔ ہماری گائیڈ تاشا نے ہمیں انتظار کا اشارہ کیا اور خود اسٹیشن کے اندر چلی گئیں۔ چند منٹ بعد واپس آ کر ہم سب میں کیبل کار کے ٹکٹ تقسیم کیے۔ ہم یورپی رواج کے مطابق قطار بنا کر ایک ایک کر کے بڑی سی کیبل کار میں سوار ہو گئے۔

سی مینز کمپنی کی بنائی ہوئی یہ کیبل کار اتنی کشادہ تھی کہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ تقریباً تمام مسافر اسی ایک کیبل کار میں سما گئے۔ کیبل اپریٹر کے لیے ایک الگ کیبن بنا ہوا تھا، جس میں وہ سنجیدگی سے اپنے کام میں مصروف تھا۔ دروازے بند ہوئے اور کیبل کار نے تقریباً عمودی چڑھائی شروع کی۔ آخری بلندی تک پہنچنے سے پہلے راستے میں دو تین اسٹیشن آئے جہاں کیبل کار نے کچھ دیر توقف کیا، مگر دروازے بند ہی رہے—شاید بیٹری چارجنگ کی غرض سے۔

کشادہ کھڑکیوں سے ایلپس کی پہاڑیوں اور اردگرد کے مناظر کا آہستہ آہستہ دور اور چھوٹے ہوتے جانا ایک دل موہ لینے والا منظر تھا۔

یہ کیبل کار اسٹیشن سالزبرگ بان (Salzbergbahn) کہلاتا ہے۔ یہاں سے کیبل کار سیاحوں کو ہالشٹٹ کے بلند ترین مقام سالزبرگ (Salzberg) تک لے جاتی ہے، جہاں سے آپ کو ہالشٹٹ اسکائی واک (Hallstatt Skywalk) نامی پلیٹ فارم پر پہنچنے کا موقع ملتا ہے، جو زمین سے 360 میٹر بلند ہے۔

کیبل کار آہستہ آہستہ بلندی طے کرتی ہوئی اپنے بلند ترین مقام، یعنی اسکائی واک کے پلیٹ فارم تک پہنچی۔ ہم سب کیبل کار سے نکل کر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ گئے اور اسکائی واک کے مختلف حصوں پر کھڑے ہو کر یادگار تصویریں بنوانے لگے۔ سامنے حفاظتی جنگلے لگے ہوئے تھے، جنہیں تھام کر ایلپس کی پہاڑیوں، نیچے دور تک پھیلے سبزہ زاروں اور جھیل کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔

جھیل کے کنارے بنے مکانات، عمارتیں، اور ان تک جاتی بل کھاتی سڑکیں کھلونوں کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔ دوسری جانب تقریباً برابر بلندی کی نوکیلی، سنگلاخ چٹانی پہاڑیاں تھیں۔

آدھے گھنٹے کے قیام کے دوران نہ صرف ہم سب نظاروں سے لطف اندوز ہوئے، بلکہ بہت سی یادگار تصویریں بھی بنائیں۔ اسکائی واک پر باقاعدہ کوئی ریسٹورنٹ تو موجود نہیں تھا، البتہ ایک چھوٹی سی اسٹال نما دکان تھی۔ وہاں سے سنیکس خریدے گئے اور واش روم کا استعمال کیا گیا۔

پھر ہم نے کیبل کار میں سوار ہو کر نیچے واپسی کا سفر شروع کیا۔ ایلپس کی کچھ چوٹیاں اتنی عمودی اور نوکیلی تھیں کہ ان پر چڑھنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور تھا۔

ہمیں بتایا گیا کہ ان پہاڑوں کے نیچے نمک کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں، جن سے دنیا کی 400 سالہ ضرورت پوری کی جا سکتی ہے۔ اسی لیے اس علاقے کو دنیا کا “نمک گودام” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ معلومات ہمیں ٹاشا نے دیں—سچ ہے یا مبالغہ، یہ وہی جانے۔

کیبل کار اور مشرقی ایلپس کی چوٹیوں کی سیر کے بعد ہماری کوچ ویانا کی طرف روانہ ہوئی۔ واپسی کے دوران ہلکی سی غنودگی اور نیند کا سا ماحول رہا۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے طویل سفر میں ایک موقع پر کوچ ایک سروس اسٹیشن پر پندرہ بیس منٹ کے چائے کے وقفے کے لیے رُکی۔

جب ہم ویانا پہنچے تو رات پوری طرح اپنا جادو جگا چکی تھی۔ ویانا کی خوبصورت عمارتیں روشنیوں سے جگمگا رہی تھیں۔ ہماری کوچ کارل پلاٹز کے مرکزی اسٹیشن کے قریب جا کر رُکی۔ سب نے اتر کر تاشا اور ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا اور حسبِ استطاعت ٹِپ دی۔

ہم نے تاشا سے دریافت کیا کہ کیا اس وقت کوئی سپر مارکیٹ کھلی ہوگی؟ اُس وقت ساڑھے نو بج رہے تھے۔ تاشا نے بتایا کہ ویانا اور لندن میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ یہاں آٹھ بجے کے بعد تقریباً تمام دکانیں بند ہو جاتی ہیں، سوائے ریستورانوں اور مے خانوں کے۔

ٹرین اسٹیشن کی جانب چلے تو تازہ ہوا کے جھونکوں نے استقبال کیا۔ ویانا کی نرم مگر خنک رات نے ہاتھ تھاما۔ عمارتیں روشنیوں میں نہائی ہوئی تھیں، جیسے کسی نے سنہرے رنگ کی تہہ در و دیوار پر چھڑک دی ہو۔ سڑک کنارے کیفے ہاؤس کی کھڑکیوں سے اندر کی روشنی، خوشبو اور رونق جھانکتی محسوس ہو رہی تھی۔ کہیں کہیں پیانو کی مدھم دھن سنائی دیتی، شاید کسی کیفے کے گوشے سے آ رہی ہو۔

ہماری آنکھوں میں نیند اور تھکن تھی، اور ہم نے اس منظر کو جیتے جاگتے منظر کے بجائے کسی فنکار کی بنائی پینٹنگ کی طرح دیکھا۔ ایک موڑ پر سامنے کارلسکیرچے (Karlskirche) کا جگمگاتا گنبد نظر آیا۔ سفید سنگِ مرمر پر پڑتی زرد روشنی اُسے شاہی محل کا تاثر دے رہی تھی۔ سڑکوں پر سناٹا نہیں، بلکہ ایک پُرسکون ہلچل تھی۔ نوجوان جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چہل قدمی کر رہے تھے، اور کہیں کوئی اکیلا موسیقار سڑک کنارے وائلن بجا رہا تھا۔

ہم نے قریبی اسٹیشن سے ٹرین پکڑی اور ہیٹزنگ اسٹیشن پر اُترے۔ باہر نکل کر ایک لبنانی حلال ٹیک اوے سے ڈونر کباب لیے۔ رات کافی ہو چکی تھی، اس لیے کسی ریستوران میں جا کر کھانے کا آرڈر دینا ممکن نہ تھا۔ ہم اپنے کمروں میں واپس آئے اور ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد کچھ گپ شپ ہوئی، اور یوں آسٹریا کہانی کا ایک اور دن مکمل ہوا۔

۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *