پہلی قسط
شارق علی
ویلیوورسٹی
میں اور مونا جہاز کی نشستوں پر ساتھ بیٹھے ناشتے کا مینیو دیکھ رہے تھے۔ مینیو خاصا طویل تھا لیکن بیشتر ہمارے کام کا نہیں۔ آخرکار ویجیٹیرین میل ڈیل پر اتفاق ہوا۔ چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر محوِ پرواز جہاز میں یہ انتظام مناسب سمجھوتہ محسوس ہوا۔ جہاز مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مختلف قومیتوں کے افراد اپنی اپنی زبانوں میں بات چیت کرتے ہوے۔ کوئی کتاب میں گم تو کسی کی نظریں کھڑکی سے باہر پھیلے نیلے آسمان میں کھوئی ہوئیں، تو کوئی ساتھ بیٹھے مسافر سے محوِ گفتگو۔
یہ پرواز لندن کے اسٹینسٹڈ ایئرپورٹ سے روانہ ہوکر ایک گھنٹہ پچاس منٹ میں ویانا پہنچنے والی تھی۔ ویانا—آسٹریا کا دل، جو اپنی ثقافت، تاریخ اور موسیقی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ موزارٹ اور بیتھوون کی دھنیں، شون برن پیلس کے طلائی دیواروں والے تاریخی ہال اور قدیم باغات کا خیال ذہن میں اندازے قائم کر رہا تھا۔
صبح پانچ بجے کے قریب جب ہم اسٹینسٹڈ ایئرپورٹ پہنچے—جو ہمارے گھر سے صرف دس منٹ کی مسافت پر ہے— تو ایئرپورٹ کی روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ یہ سکول کی چھٹیوں کا موسم تھا، ایئرپورٹ پر ہر طرف ہلچل کا سماں تھا۔ کہیں والدین بچوں کو پیچھے رہ جانے پر سرزنش کر رہے تھے، تو کہیں بچے شوق سفر میں والدین کو آگے کی سمت دھکیلتے نظر آتے۔
سیکیورٹی چیک کی قطار برطانوی نظم و ضبط کی بدولت تیزی سے عبور ہوگئی۔ ڈیوٹی فری شاپس کے درمیان سے گزرتے ہوئے، مہنگی گھڑیوں کی جھلک اور مفت خوشبوؤں کی مہک کو نظر انداز کرتے ہمارا رخ سیدھا مین ویٹنگ ایریا کی جانب تھا۔ ہم کچھ لیٹ ہو چکے تھے اور ایئرپورٹ پر اطمینان سے ناشتے کا منصوبہ ناکام نظر اتا تھا۔ ویسے وہاں اردگرد ریستورانوں کی بہتات تھی۔ لیکن اسکرین پر ہماری فلائٹ کا گیٹ نمبر بلنک کر رہا تھا۔ ہم نے سامنے موجود حلال لبنانی ریستوران کے ناشتے کے مینیو کو حسرت سے تکا اور متعلقہ گیٹ کی جانب تیزی سے قدم بڑھا دیے۔
پرواز وقت پر روانہ ہوئی۔ اور اب ہم ویجیٹیرین ناشتے سے جوں توں فارغ ہوکر نیم دراز اپنی نشستوں پر ویانا کے بارے میں شیخ چلی اندازے لگا رہے تھے۔
ویانا—باروک طرزِ تعمیر کی شاندار عمارتوں اور یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کیفے کلچر کا شہر— ہم سوچ رہے تھے کہ جانے یہ شہر کیسا ہوگا؟ کیا اس کے کیفے اور چائے خانوں میں بیٹھے دانشوروں کی دلکش گفتگو آج بھی فضا میں گونجتی ہوگی؟ شون برن پیلس کی دیواریں اور باغات کیا اب بھی ماضی کی شان و شوکت کا پتہ دیتے ہوں گے؟ ایسے سوالوں کے جواب جلد ہی حقیقت بن کر ہمارے سامنے آنے والے تھے۔
اناؤنسمنٹ ہوئی اور کچھ دیر بعد جہاز نے ویانا ایئرپورٹ کے لیے اپروچ بنانا شروع کی۔ کھڑکی سے نیچے کے مناظر دلکش تھے: ہلکی پہاڑیاں جنہیں گھنے جنگلوں نے ڈھانپ رکھا تھا اور ہموار میدان جہاں تازہ سبز فصلیں لہلہا رہی تھیں۔ کم از کم ہماری کھڑکی سے شہری بلند و بالا عمارتوں کا کوئی نام و نشان نظر نہ اتا تھا۔
آہستہ آہستہ جہاز نیچے ایا اور ایک نرم ٹچ ڈاؤن کے بعد ایئرپورٹ کی مرکزی عمارت کی جانب بڑھنے لگا۔
ہم اسٹریا کی سرزمین پر قدم رکھ چکے تھے۔ ویانا جہاں موسیقی، تاریخ اور فنونِ لطیفہ کی روح سانس لیتی ہے ….جاری ہے