Emotional, psychological, and social well-being determines the way people think, feel, act. relate, choose and decide. Mental health is an essential prerequisite for happiness
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
ذہنی صحت، سیج انشے سیریل، تیسواں انشاء، شارق علی
نفسیاتی صحت پر ہونے والے سیمینار کے منتظمین کی یہ پہلی نشست تھی۔ سیج ٹی ہاؤس پہنچا تو گفتگو شروع ہو چکی تھی۔ سوفی بولی۔ نفسیاتی امراض کے بارے میں ہمارا سماجی رویہ جاہلانہ اور سنگ دل ہے۔ بیماری اگر شہرت پر بد نما داغ ہو تو مریض سماج سے کٹ کر تنہا رہ جاتا ہے۔ عجیب و غریب نظروں کا سامنا کسی سزا سے کم تو نہیں۔ پروفیسر گل بولے۔ ۔ یہ منفی رویہ ایک قابلِ علاج مرض کو لا علاج بنا دیتا ہے۔ متاثرہ شخص مسئلہ کو خفیہ رکھتا ہے اور علاج کےلئے رجوع نہیں کرتا۔ یوں اندر ہی اندر گھٹ کر مزید نقصان پہنچتا ہے۔ شرم ، نہ سمجھے جانے کی اذیت اور احساس جرم اس کے تعلقات، روزگار اور زندگی کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ نفسیات کے استاد پروفیسر سبطے بولے۔ یہ امراض بہت عام ہیں۔ کوئی نہ کوئی مثال ہر خاندان میں موجود ہوتی ہے۔ صحتمند لوگ بھی کبھی عارضی طور پر اس کا شکار ہوتے ہیں۔ مثبت بات یہ ہے کہ بیشتر مرض قابل علاج ہوتے ہیں اگر عزیز رشتے دار اور دوستوں کی مدد حاصل ہو۔ وہ معالج سے رابطہ رکھیں اور تعاون کریں۔ بہتری کے لئے مریض میں امید، خود انحصاری، مستقل مزاجی، آزادی رائے اور خود کو قائل کرنے کی صلاحیت اہم ہوتی ہیں۔ پروفیسر گل نے کہا۔ قدیم انسان نے ذہنی امراض کو کبھی مقدس روحانی تجربہ سمجھا اور کبھی شیطانی اثرات سمجھ کر بے رحم سزائیں دیں۔ افلاطون شاید پہلا شخص تھا جس نے پاگل پن کو بھوت پریت کا سایہ یا الہامی انکشافات سمجھنےکے بجائے جسمانی وجوہات کی تلاش پر زور دیا۔ یورپ میں تو قرون وسطی تک ہیسٹیریا میں مبتلا عورتوں کو چڑیل قرار دے کر معاشرے سے نکال دیا جاتا تھا۔ اٹھارویں صدی کے شروع میں روشن خیال طبقے نے انہیں بیماری کے طور پر قبول کیا۔ دنیا کا پہلا نفسیاتی ہسپتالِ کونسا ہے؟میں نے پوچھا۔ پروفیسر سبطے بولے۔ سینٹ میری آف بیتھلیہم دنیا کا پہلا نفسیاتی ہسپتال ہے۔ جو با راہ سو سینتالیس میں لندن میں قائم ہوا اور آج تک کنگز کالج سے منسلک خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ دراصل لوگوں کو اخلاقی درس دینے، انہیں عیش و عشرت کی زندگی کے برے اثرات سے دور رکھنے کےلئے قائم ہوا تھا۔ امیر طبقے خصوصاً خواتین میں ان دنوں ہیسٹیریا ، اداسی اور خودآزاری حتی کہ خود کشی ایک فیشن بن چکی تھی۔ کوئی انقلابی ڈاکٹر اس شعبے کا؟ رمز نے پوچھا۔ بولے سگمنڈ فروئڈ پہلا ڈاکٹر تھا جس نے ان امراض کی مکمل شفایابی کی امید دلائی۔ اگرچہ اس کی بیان کردہ وضاحتیں متنازع رہیں لیکن انہیں ایک قدم آگے ضرور کہا جا سکتا ہے۔ وہ اٹھارہ سو چھپن میں چیک ریپبلک میں پیدا ہوا لیکن چار سال کی عمر میں خاندان سمیت ویانا آیا اور باقی زنگی کے اٹھہتر سا ل وہیں گزارے۔ سائنس اور انسانی شخصیت میں گہری دلچسپی اسے طبی تعلیم اور پھر دماغ اور نفسیاتی تحقیق کی جانب لے نکلی۔ وظیفہ ملا تو پیرس جا کر شارکوٹ کے ساتھ کام کیا جو ہئسٹیریا میں عالمی شہرت رکھتا تھا۔ واپس ویانا آکر دماغی امراض کے ماہر کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی۔ مریضوں کی ذاتی تفصیل نے اسے تحقیق میں مدد دی اور اس نے جنسی نشود و نما اور ذہنی مرض نیوروسس میں گہرے تعلق کی نشاندہی کی۔ وہ اپنی کتاب میں خوابوں اور لا شعور کے مسائل کو زیر بحث لایا۔ خواب اور ذہنی صحت میں کیا تعلق ہے؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ خواب لا شعوری تصویروں، آوازوں، خیالات اور جذبات کا وہ تسلسل ہیں جس سے ہم نیند کے دوران گزارتے ہیں۔ خاص طور پر اس نیند کے دوران جب ہماری بند آنکھیں تیزی سے حرکت کر رہی ہوتیں ہیں۔ سائنسدان اسے ار ا ی ایم نیند کہتے ہیں۔ شاید یہ ہمارے شعور اور لا شعور کے مابین سیکھنے کا کوئی عمل ہے۔ انسانی زندگی کے اوسطاً چھ سال خواب دیکھتے ہوئے گزرتے ہیں۔ صدافسوس کے زیادہ تر خوابوں کا عنوان خوف یا پریشانی ہوتا ہے۔ پوفیسر گل بولے۔ بد قسمتی سے انگریزی اور اردو ادب میں اداسی اور جنون کو رومانویت سے جوڑا گیا۔ مشہور ادیبوں کی کچھ مثالیں ایسی سامنے آئیں جس نے اس تصویر کو نا پختہ ذہنوں میں تقویت بخشی۔ مثلاً شیلے، بائرن ، سلویا پلاتھ اور ورجینیا، وولف وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ یہ غلط مفروضے ہیں۔ متوازن، صحتمند اور مثبت دانشورانہ زندگی کی روشن مثال تو طویل اور صحتمند زندگی پانے والے نیوم چومسکی اور انتظار حسین ہیں۔۔۔۔۔۔ جاری ہے