Discover the Japanese philosophy of imperfection called Wabi Sabi in this story
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
وابی سابی، تیسرا انشا، سیج، انشے سیریل، شارق علی
میں اور رمز ہال میں داخل ہوئے تو جاپان سوسائٹی کے تحت ثقافتی جشن میں یونا اور سوفی کے خوش رنگ کیمونو، آراستہ بالوں، خوش آمدیدگی کے انداز، راہ داریوں، اسٹالوں، اسٹیج، لباس، موسیقی، کھانوں اور مشروبات کی مہک میں جاپانی تاریخ اور ثقافت پوری طرح جاگی ہوئی تھی۔ کھانے میں اوزن کا انتخاب کر کے جس میں میسو سوپ، چاول، ابلی ہوئی سبزیاں، لوبیا اور جاپانی اچار شامل تھا۔ ہم کوکیریکو جو دو لکڑیوں کے ٹکرانے کی مدھر موسیقی ہے، سے کچھ فاصلے پر رکھی میز پر آ بیٹھے، تو میں نے کہا۔ یونا آج تو گھر بہت یاد آ رہا ہوگا۔ کچھ سناو اپنے شہر کا حال۔ بولی۔ اوساکا یا کیوٹو سے ٹرین لو تو صرف آدھ گھنٹے کا سفر ہے نارا تک۔ شہر جیسے پیالے کے بیچ میں رکھا ہوا ۔ چاروں طرف سر سبز پہاڑ۔ ٹرین اوساکا جا رہی ہو تو گہری سرنگ میں داخل ہو کر پہاڑوں کہ عبور کر کے دوسری جانب نکلتی ھے تو کھڑکی سے دکھائی دیتا منظر بالکل تبدیل ہوچکا ہوتا ہے۔ دلکش پگوڈوں، جھیلوں، سبزہ زاروں، مندروں، تاریخی عمارتوں ، گلیوں اور باغوں میں آزادانہ گھومتے ہرنوں کا شہر ہے نارا۔ ثقافتی تاریخ اور جدید طرز زندگی کا حسین امتزاج۔ ۷۱۰ سے ۷۸۴ ص ع تک یہ جاپان کا پہلا دارالحکومت رہا۔ یہاں کی فکر نے جاپانی ادب پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ سوفی نے جاپانی رائس کیک موچی کا تکون ٹکڑا اٹھایا اور بولی۔ وابی سابی کا فلسفہ بہت دلچسپ لگتا ہے مجھے۔ کچھ وضاحت اس کی بھی۔ یونا بولی۔ ادھورے پن میں حسن تلاش کر لینے کو وابی سابی کہتے ہیں۔ گویا حسین اور قابل ستائش و محبت غلطیوں سے پاک دیوتا نہیں بلکہ ہم خام انسان ہیں۔ جمالیت کا یہ تصور بے حد حقیقت پسندانہ ہے۔ گویا دکھ، رائیگانی، بہار و خزاں اور حیات و موت کا سلسلہ معنی خیز بھی ہے اور دلکش بھی ۔ میرے بچپن کی ایک کہانی میں ایک بلی کیوٹو شہر کی گلیوں میں کھو جاتی ہے۔ پھر ماجرا کھلتا ہے کہ اس کا کھو جانا ہی کیوٹو شہر کی دریافت کا سبب تھا۔ خود کو پانے کے لئے ہمیں خود میں کھونا پڑتا ہے۔ سوفی بولی۔ وابی سابی کے پس منظر میں زین بدھ ازم اور ٹاوازم کی جھلک نظر آتی ہے۔ دنیا کے ادھورے پن اور بے ثباتی کو گلے لگا لینا بے حد متاثر کن ہے۔ جاپانی درویش موراتا شؤکو نے چائے پینے کی مقدس روایت میں سونے اور جواہرات جڑے برتنوں کے بجائے لکڑی کے کھردرے برتن استعمال کر کے اور چائے خانے کا دروازہ پست قامت بنا کر، تاکہ حکمران بھی سر جھکا کر داخل ہوں، انہیں عاجزی اور وابی سابی کی تعلیم دی تھی۔ رمز فلسفیانہ انداذ میں بولا ۔ نارا کا ادھورا ذکر بھی تو وابی سابی جیسا حسین ہے۔ یونا کی جاپانی آنکھیں چمکیں اور وہ مسکرا کر بولی۔ کوئی تین لاکھ آبادی ہے نارا کی .جدید سڑکیں، زیر زمین ٹرین اور وقت کی بے حد پابند ریلوے ۔ بازار اوساکا اور ٹوکیو جیسے جدید لیکن پانچ بجے سب بند۔ . منفرد بات گلیوں اور باغوں میں آزادانہ گھومتے ہرن ہیں۔ اچانک بھاگتے سڑک پر آ جائیں تو حادثوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔ تاریخی عمارتیں، نوادرات سے پر میوزیم، لکڑی سے تعمیر ٹوڈائجی کا مندر تو دیکھنے کی چیز ہے۔ زیادہ تر شہری بوڑدھے۔ جوان بہترمستقبل کی تلاش میں بڑے شہروں میں۔ جو ہیں بھی وہ ایون شاپنگ مال کے پر رونق ریستورانوں میں ڈیٹینگ کرتے ملیں گے۔ جاپان جاو تو میرے شہر نارا ضرور جانا۔ فضائوں میں سانس لیتی تاریخ کا مزہ لینے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے