Sixty-six million years ago, an asteroid struck eastern Mexico and wiped out dinosaurs and more than half of life on the planet earth. Exactly how so much life on Earth still survived is a tantalizing mystery
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
تباہی، سیج، انشے سیریل، چوبیسواں انشاء، شارق علی
شمالی کوریا اور چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی امریکہ اور جنوبی کوریا کے بیلسٹک میزائل داغے گئے تو سیج ٹی ہائوس میں گرما گرم بحث چھڑ گئی۔ پروفیسر گل بولے۔آج انسانی زندگی اور تہذیب کو ایٹمی جنگ اورماحولیاتی آلودگی کے حقیقی خطرات درپیش ہیں۔ غیر مستحکم ایٹمی طاقتوں مثلاً ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی تنائو، پوری دنیا میں بےدردی سے جنگلوں کا کٹنا، بے دریغ معدنیات کے حصول اور استعمال سے پیدا شدہ آلودگی اور نایاب جانوروں کا غیر قانونی شکار جیسی لا پرواہ طرزِ زندگی زمینی حیات اور تہذیبی ارتقاء کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ دینیات کے استادجابر صاحب چائے کا گھونٹ بھر کر بولے۔ ارتقاء محض ڈارون کی ذہنی ایجاد تھی ۔ اسے سنجیدہ لینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ پروفیسر گل نے کہا۔ ارتقاء حقیقی مشاہدات پر مبنی سائنسی فکر کا نام ہے۔ اگر ہم سو سالہ پرانی کار دیکھیں اور پھر موجودہ کار کے ماڈل تک پہنچتے دیگر ماڈلوں کی جھلکیاں بھی تو سو سالہ موٹر انجینئیرنگ کے ارتقاء کی حقیقت کو با آسانی تسلیم کر لیں گے۔ حیاتیاتی ارتقاء کی مدت کیونکہ کروڑوں سال ہے اسی لئے یہ خیال ناقابلِ یقین لگتا ہے۔ ۱۸۵۹ میں ڈارون نے جو مقالہ پیش کیا تھا، سائنسدان اس کی حمایت میں بہت سے شواہد ڈھونڈ چکے ہیں۔ قدرتی انتخاب حیات کی ان قسموں کی حمایت کرتا ہے جو حالات کے مطابق خود کو ڈھال سکیں ۔ بھورے خرگوش برفانی علاقوں میں تب ہی اپنی نسل بڑھا سکیں گے جب ان کی رنگت سفید ہو تاکہ وہ برف میںشکاری جانوروں سے چھپ سکیں۔ رفتہ رفتہ سرد علاقوں کے تمام خرگوش سفید ہو جائیں تو یہ حالات سے سازگاری کی جیت اور حیاتیاتی ارتقاء کہلائے گا۔ دوسری طرف ایسے پرندوں کی نسل جن کا جسم وزنی اور پر کمزور ہوں، غذا کی کمی کے باعث اگر نیست و نابود ہو جائیں تو یہ سمجھ میں آتا ہے۔ زندہ رہنے کی اس دوڑ میں جانور اور درخت بعض اوقات ایک سی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں۔ وہ کیسے؟ سوفی نے پوچھا۔ مسکرا کر جوس کا گلاس میز پر رکھا اور بولے۔ فرض کرو میں درخت ہوں اور رمز جانور اور ہم ایسے جنگل میں رہتے ہیں جہاں بڑے حیوانوں کے لئے ہم دونوں مرغوب غذا ہیں تو دفاع کی ایک صورت جسم پر کانٹے اگا لینا ہو گی۔ یوں ارتقاء کے سفر میں رفتہ رفتہ میں کیکٹس اور رمز خار پشت بن کر ابھرے گا۔ ڈارون نے ایسے ہی دلچسپ چھوٹے مشاہدات کی بناء پر اپنا انقلابی سائنسی مقالہ تیار کیا تھا۔ کیا ارتقاء کا یہ سفر کبھی کسی بڑی تباہی سے بھی دو چار ہوا؟ میں نے پوچھا۔ بولے. کوئی ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ہماری زمین پر یقیناً ایسی تبدیلی آئی تھی جس نے دنیا میں موجود آدھی سے زیادہ حیات کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ اس تباہی سے دیوقامت ڈائناسور کا نام و نشان مٹ گیا لیکن کچھوے، مینڈک، مگرمچھ اور بہت سی مچھلیاں زندہ بچ نکلے ۔ اس تباہی کی وجہ کے حوالے سے سائسدان دو اندازوں کو معتبر جانتے ہیں۔ پہلا تو یہ کے خلا سے آنےوالے کسی بہت برے شہابِ ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے بعد آسمان ملبے اور دھوئیں کی کثرت سے تاریک ہو گیا تھا اور زمین تک سورج کی روشنی پہنچنا ممکن نہ رہا تھا . پھر گرین ہائوس ایفیکٹ کی وجہ سے درجہِ حرارت اس قدر بڑھ گیا کہ بیشتر زمینی حیات زندہ نہ رہ پائی۔ دنیا بھر میں بکھری چٹانوں کی ساڑھے چھ کروڑ سال پرانی تہہ کا تجزیہ ایریڈیم کی کثرت رکھتا ہے۔ یہ دھات زمینی نہیں بلکہ شہابِ ثاقبوں میں پائی جاتی ہے۔ دوسرا ثبوت میکسیکو کے نزدیک سمندر میں ایک سو اسی کلو میٹر چوڑے اس کریٹر کی دریافت ہے جو غالبن اسی شہابِ ثاقب کے ٹکرانے سے وجود میں آیا تھا۔ دوسرا تحقیقی اندازہ ایک عظیم آتش فشانی واقع کو اس تباہی کا سبب بتاتا ہے۔ لیکن یہ بات بلا شبہ ہے کہ آج ہم انسان اتنے سارے ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں کہ اس سے بھی کہیں زیادہ تباہی کو ممکن بنا سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے