Enjoy a brief review in Urdu/Hindi on Sufi musical Ishq in Sadlers Wells Theatre, London staged on 7th September 2017
سیڈلرز ویلز میں صوفی میوزیکل عشق، انشاء، ویلیوورسٹی، شارق علی
چکن حلال نہ تھی اسی لئے ویجیٹیرین کھانے کے نام پر بے نمک نامعلوم ساگ، گوبھی، چک پیز، خشک چاولوں اور گاجر دھنیے کے سوپ کو اپنا نصیب مان کر قبول کرنا پڑا۔ سات ستمبر دو ہزار سترہ کی خوش گوار شام میں میں اور مونا مشرقی لندن میں واقع سیڈلرز ویلز تھیٹر کے سٹیج ڈور سے متصل آرٹ گیلری نما کیفے میں ہسپتال سے فارغ ہو کر بس ابھی پہنچے تھے۔ مقررہ وقت پر تھیٹر کے لاونج میں داخل ہوئے تو شو شروع ہونے میں کچھ دیرباقی تھی۔ پاکستان ہائی کمیشن کے پر وقار خیر مقدمی انتظامات دیکھ کر جی خوش ہوا۔ لندن میں آباد پڑھے لکھے،خوش لباس اور خوش ذوق پاکستانیوں اور دیگر شائقین کی کثیر تعداد صوفی میوزیکل عشق دیکھنے کے لئے موجود تھی۔ گہما گہمی میں بھی مہذب خوش گواری تھی۔ ویٹنگ لائونج میں ساتھ بیٹھے اسی سالہ بوڑھے انگریز سے گفتگو شروع ہوئی تو وہ سیڈلرز ویلز تھیٹر کا پرانا شناسا نکلا۔ بولا۔ میرے بچپن میں یہاں کا سب سے سستا ٹکٹ چھ پینس کا تھا۔ سولہ سو تیراسی میں یہ ایک میوزک ہاؤس کے طور پر قائم ہوا تھا۔ پھر اٹھارویں صدی میں مداری کے تماشے، کتوں کے کرتب اور کشتی کے مقابلے بھی ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ اس نے اوپیرا تھیٹر کی صورت اختیار کر لی ۔ انیسویں صدی میں مزاحیہ اداکار گریمالڈی نے اس کی شہرت کو چار چاند لگائے۔ بیسویں صدی کے شروع کی زبوں حالی کے باعث اخباروں نے اسے زخمی پلے ہاؤ س لکھا۔ پھر شمالی لندن کے عام لوگوں تک آرٹ خصوصاً رقص کی سستی رسائی کے لئے اس نے شہرت پائی ۔ حالیہ دور میں یہ دو ہزار چار میں نئی طرز اور آرائش کے ساتھ دوبارہ نمودار ہوا ہے۔ آج یہ میوزیکل پیش کرنے کی تمام جدید سہولیات سے آراستہ ہے۔ دروازے کھلے تو سرخ قالین سے گزر کر ہم اپنے اسٹال تک پہنچے جو مرکزی مقام پر اسٹیج سے بہت مناسب فاصلے پر تھا۔ ہیر رانجھا آٹھارویں صدی کے مرد حکمران معاشرے میں عورت کی پسند و نا پسند کی آزادی کے لئے بھرپور جدو جہد اور مزاحمت کی کہانی ہے۔ سرینڈپ کی پروڈیوسر ہما بیگ نے وارث شاہ کی چھ سو برس پہلے لکھی اس داستان کو لندن کے اسٹیج پر دوبارہ زندہ کیا ہے۔ دو معصوم دلوں کی محبت اور خاندانی عزت سر بلند رکھنے کی منافقانہ کوششوں کے ڈرامائی ٹکراؤ کی یہ کہانی شیکسپیئر کے رومیو جیولیٹ سے بہت ملتی جلتی ہے۔ ہم ٹی وی کے احسن خان اور چینل فور کی رشیدہ علی ہیر رانجھا اور منٹو سے شہرت پانے والے عدنان جعفر ویلین کیدو کے کردار میں اسٹیج پر آئے۔ ایان برینڈن اور ایمو نے موسیقی ترتیب دی ہے اور اوون ا سمیتھ نے رقص ۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کھیل میں پیش کئے گئے رقص اور موسیقی کے مظاہروں میں روایت اور جدت کا امتزاج ہے ۔ تیزی سے تبدیل ہوتے دل کش سیٹ ڈیزائنز، انگریزی مکالموں میں اردو اور پنجابی کی خوشگوار ملاوٹ، گایکی اور اداکاری کے بیشتر متاثر کن اور بعض کمزور مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ قوس قزح کے رنگوں جیسے کوسٹیومس، حسین زیورات اور اسکرین پر رنگین اور دلکش ڈیجیٹل عکاسی نے خوب رنگ جمایا۔ مجموعی طور پر پاکستان اور برطانیہ سے منتخب نوجوانوں فنکاروں کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔ پاکستان ہائی کمیشن لندن نے سترویں جشنِ آزادی ک موقع پر اس پروڈکشن کو بھر پور سرپرستی دی۔ خاص طور پر ہائی کمشنر ابنِ عباس صاحب، منیر احمد صاحب اور مس نغمہ بٹ کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں