Karl Popper is one of the 20th century’s greatest philosophers of science for his rejection of the classical inductivist views on the scientific method
I am Azm, a student at Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
۔سوچ کا رخ، سیج، انشے سیریل، سینتیسواں انشاء، شارق علی
فل لندن اسکول آف اکنامکس( ایل ایس ای) میں تھا لیکن مضامین کا اختلاف ہماری دوستی میں حائل نہ تھا۔ پروفیسر گل لندن میں گزرا طالبِ علمی کا زمانہ یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ اکثر ساتھ گھومتے۔ ساؤتھ بینک میں پرانی کتابیں اور سستے کیفے ڈھونڈنے کا مقابلہ ہوتا۔ لندن برج، ٹرافالگر، پکاڈلی ، سینٹ جیمزز پارک اور لندن کے گلی کوچے ہماری نا ختم ہوتی بحث سے واقف تھے۔ اسی سے پتہ چلا کہ ایل ایس ای کی ابتدا ذاتی ڈائری میں لکھی ایک عبارت سے ہوئی تھی۔ معاشیات اور سیاسی سائنس کا ایسا ادارہ جس میں لیکچروں کا اہتمام اور سچی تحقیق کے مواقع فراہم ہوں۔ یہ تحریر اٹھارہ سو چورانوے میں بیٹرس ویب نامی خاتون نے اپنی ڈائری میں لکھی تھی۔ ایک سال بعد اپنے شوہر اور تین دوستوں سمیت جن میں جارج برنارڈ شا بھی شامل تھے ، اس نے لندن کے علاقے اسٹرانڈ مین تین کمروں پر مشتمل ایل ایس ای کی بنیاد رکھی ۔فل کی شخصیت پر استادوں کا اثر صاف جھلکتا تھا۔ اور دانشوروں کا اثر ہمارے نوجوانوں پر؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ صورتِ احوال تمہارے سامنے ہے۔ کاش ہم اک صحت مند معاشرہ ہوتے جو اداروں اور بےلوث دانش وری کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ یہاں تو بکاؤ سیاسی تجزیہ نگار، مفاد پرست اور بد گو عالمِ دین اور کرپشن میں رنگے سیاستداان ٹی وی اسکرین پر دانش وری کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ سچے دانشور کی کوئی مثال؟ سوفی نے پوچھا بولے۔ ایل ایس ای کا پروفیسر کارل پوپر بہترین مثال ہے ۔دانشوری انسانی سوچ کی سمت تبدیل کر دینے کا نام ہے. پوپرنے سائنس کے حوالے سے سوچ کو نیا رخ دیا۔ وہ انیس سو دو میں ویانا کے خوش حال گھرانے میں پیدا ہوا اور انیس سو چورانوے میں لندن میں وفات پائی۔ خوش قسمت تھا کہ بہترین تعلیم اور تربیت ملی۔ گھر میں شاندار کتب خانہ موجود تھا اور اچھی موسیقی سے لطف اندوزی روز مرہ میں شامل۔ اتنی آسودہ زندگی کے باوجود اس کی فکر غربت پر مرکوزرہی۔ وہ لکھتا ہے یورپ کے بیشتر شہری غریبوں کی کسمپورسی اور ان کی بے یار و مددگاری سے آشنا نہیں۔ سائنسی سوچ میں تبدیلی، وہ کیسے؟ رمز نے پوچھا۔ بولے ان دنوں ویانا سرکل نامی کچھ فلسفی کسی خیال یا مفروضے کو مشاہداتی تصدیق کی بنیاد پر سائنسی علم تسلیم کر لینے کے حامی تھے۔ پوپر نے بالکل مختلف رائے پیش کی۔ وہ کہتا ہے سائنسی علم محض ایک اتفاق ہوتا ہے جو کسی خیال یا مفروضے کے مسلسل غلط ثابت ہو جانے سے وجود میں آتا ہے۔ اس نے اس موضوع پر کئی کتابیں لکھیں۔ اس کی مشہور کتاب ہے سائسی دریافت کی منطق۔ پوپر کےاس اصول کی قبولیت نے موجودہ سائنسی سو چ کے رخ کو تبدیل کر دیا۔ اور سیاسی فکر؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ اس نے مارکس اور فرایڈ کے تصورات کو بھی چیلنج کیا ۔ مثلاً مارکس نے علم اور سماج کو تاریخی ارتقاء قرار دیا تھا جو مرحلہ وار حتمی مقام تک پہنچتا ہے۔ پوپر کہتا ہے کہ انسانی علم ہی تاریخی ارتقاء کی بنیا دہے۔ نہ تو کوئی سماج مستقبل کے علم کی وضاحت کر سکتا ہے اور نہ ہی سائنسی علم انسانی تاریخ کے بارے میں کسی پیش گوئی کے قابل ہے۔ سماجی سائنس میں اس کی کتاب ’’آزاد سماج اور اس کے دشمن‘‘ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے