This story takes you through the history of Olympic movement and its dream for a peaceful world by educating youth through sports and Olympism
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
اسٹیڈیم کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے میں نے اسٹاپ واچ کا بٹن دبایا اور ٹائم نوٹ کر کے تھمبز اپ سے او کے کا اشارہ دیا تو ٹریک پر بھاگتی اور فنش لائن عبور کرتی سوفی کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑی۔ پریکٹس ختم ہوئی تو سوفی اور رمز ہمارے ساتھ آ بیٹھے ۔ انٹر یونیورسٹی قریب تھا اورچار سو میٹر کے ریلے میں یہ دونوں سیج کے ایتھلیٹک اسٹار ھیں اور میں ان کا ٹائمر۔ آج اتفاقاً پروفیسرگل بھی ادھر آ نکلے تھے۔ سیج اسٹیڈیم اولمپک معیار کا ہے اور دیکھنے کی چیز۔ میں نے اسپورٹس بیگ سے تھرماس نکالا اور فریش جوس کپ میں تقسیم کرتے ہوئے کہا۔ اولمپکس کی سی ولولہ انگیزی ہے یھاں کے ماحول میں۔ پروفیسر اولمپک کی ابتدا کب ہوئی؟ بولے۔ اندازاً ۳۰۰۰ سال پہلے۔ زیتون کے باغوں سے گھرے یونانی شہر اولمپیا میں۔ دیوتائوں کے دیوتا زیوس اور ملکہ ھیرا کی عبادت کے لئے دور دور سے آنے والوں نے پہلے پہل یہ کھیل کھیلے تھے۔ کچھ کا خیال ہے ابتدا زیوس کے بیٹے اور یونانی ہیرو ہرکولیس نے کی تھی۔ یہ بات طے ہے کہ مذہبی تہوار ہی سے اس کی ابتدا ہوئی۔ رمز بولا۔ پہلے تو صرف بیس کھلاڑیوں کی ایک سو نوے میٹر سیدھی دوڑ کا مقابلہ ہوتا تھا ۔ کھلاڑی صرف مرد اور بے لباس تاکہ کسرتی بدن نمایاں ہو سکے۔ شادی شدہ عورتوں کا کھیل دیکھنا ممنوع تھا اور پکڑے جانے پر موت کی سزا۔ البتہ کنواریاں تماشائی بن سکتی تھیں۔ عورتوں کا الگ تہوار ہیرایا کہلاتا تھا۔ باقاعدہ چار سال کے وقفے سے اگست کے مہینے میں کھیلوں کی ابتداسات سو چھیتر ق م میں ہوئی اور مقبولیت اتنی کہ اٹلی، ترکی اور شام سے بھی لوگ آنے لگے۔ پروفیسر کاجو کا مزہ لیتے ہوئے بولے۔ ۴۵۶ ق م میں اولمپیا میں زیوس کا مندر اس کے تیرہ میٹر اونچے مجسمے سمیت مکمل ہوا تو تماشائیوں کی تعداد مزید بڑھی۔ اب دوڑ کے علاوہ دیگر کھیل مثلاً چیریٹ ریس اور پنتھالون جس میں پانچ کھیلوں یعنی دوڑ، کشتی، لمبی چھلانگ، نیزا اور گولا پھینکنے کی مہارت شامل تھی مقبول ہوئے۔ ان دنوں سونے، چاندی کے تمغے نہیں صرف زیتون کے پتوں کا ہار فاتح کے گلے میں ڈالا جاتا تھا۔ سوفی نے تھرماس بند کر کے بیگ میں رکھا اور بولی۔ اولمپک روایت نے دنیا کو حیرت انگیز کرداروں سے ملوایا ہے۔ جدید سمر اولمپک کی ہیروئن تو سابقہ سوویت یونین کی جمناسٹ لیریزا لیتینینا ہے جس نے تاریخ میں سب سے زیادہ یعنی اٹھارہ میڈل جیتے تھے۔ لیکن ولن تین سو ترانوے صدی عیسوی کا رومن بادشاہ تھیوڈوسیس ہے جس نے نہ صرف یہ کھیل رکوا دییے بلکہ زیوس کے مندر کو بھی کھنڈر بنا دیا۔ پھر ایک تباہ کن زلزلے اور سیلاب نے یہ کھنڈرات ایک ہزار سالوں کے لئے تہہ نشین کر دئیے۔ پروفیسر بولے۔اس کہانی کا ہیرو بیرون پیا ڈ ی کائوبرٹن نامی فرانسیسی ہے جس نے ۱۸۹۶ میں یونانی کے شہر ایتھنز میں پہلے جدید اولمپک کھیل منعقد کروائے۔ پانچ بر اعظموں کا ترجمان رنگین دائروں والا پرچم اور اولمپک کا بنیادی فلسفہ بیان کرتے یہ الفاظ اسی کے ہیں۔ جس طرح زندگی میں جدوجہد فیصلہ کن ہے جیت نہیں، اسی طرح ان کھیلوں میں شرکت اہم ہے فتحیابی نہیں۔ پھر ہم سیڑھیوں سے اٹھ کر اسٹیڈیم کے مین گیٹ کی طرف چلے تو میں نے کہا۔ کتنی سحر انگیز ہے یہ قدیم روایت کے کھیل شروع ہونے سے مہینوں پہلے اولمپیادمیں دیا روشن کیا جاتا ہے۔ پھر یہی شعلہ روشن مشعل کی صورت ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ، پا پیادہ، فضا، پانی، سڑکوں اور ٹرین کے ذریعے ملکوں ملکوں، قریوں قریوں گھومتا طے شدہ اسٹیڈیم پہنچ کر وہ آگ روشن کرتا ہے جو کھیلوں کے دوران مسلسل جلتی رہتی ہے۔ عالمی امن، محبت اور ہم آہنگی کی انسانی آرزو کی علامت ہے یہ روشن آگ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ نسلیں یہ مشعل ہاتھ میں تھامے وقت کی رہ گزر پر کتنا دور دوڑ سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے