Mamdu learns that self is not only tangible things e.g. body and possessions but also thoughts, values, moral standards, spiritual beliefs and relationship to the creator. He discovers that subjective description of who we are in our inner talk is our self awareness
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
شعور ذات، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اناسیواں انشا، شارق علی
صدر کے مرکزی بازار میں بس رکتی تو میں اور جوجی پالتو پرندے دیکھنے ایمپریس مارکیٹ جاتے. انکل تھے اور کراچی کی یادیں. بولے. جانے کب سے جمے میل کی تہوں میں گم سنگ مر مر کی سیڑھیاں اور فرش. دیواریں پان کی پیکوں اور سیاسی پوسٹروں سے ڈھکی ہوئیں. جدھر دیکھو لوگ ہی لوگ، کان پڑی آواز سنا ی دینا مشکل. کھٹمل، چھپکلی مارنے کی دوائی اور سلاجیت بیچنے والوں کی دلچسپ چیخ و پکار. ٹھیلے والوں کے گرما گرم توے پر بھنتی کلیجی کی تیز مہک،مرچوںمصالحوں کی دھا نس. پھل، سبزی ، گوشت، مچھلی، خشک میوے، کپڑے، کتابیں اور پالتو جانور، کیا نہیں بکتا وہاں پر . دونوں کم عمر تھے. یہ بھرپور سماجی تجربہ ہمارے شعور ذات میں اضافہ کرتا. شعورذات کیا ہوتا ہے دادا جی؟ میں نے پوچھا. بولے . خود اپنے بارے میں قائم کی گئی ہماری ذاتی رائے جس کی بنیاد پر ہمارا سماجی رویہ تشکیل پا تا ہے. ہمارے ذہن میں خود اپنے، سماج اور کائنات کے بارے میں بنی ایک اندرونی تصویر. اس ہی کی مدد سے ہمارا اندرونی اخلاقی نظام تشکیل پاتا ہے اور ہم زنداگی میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتے ہیں. یا نی آپا بولیں. شعورکی ابتدا تو ہماری پیدائش سے ہی ہو جاتی ہے. وقت گزرے تو مذہب، سیاسی پسند نا پسند، ذات پات، سماج، ذاتی رشتے اور توقعات سب ہی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں. وہ سب بھی جو ہم اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں ، دوستوں، استاد اور شاگردوں سے سیکھتے ہیں. انکل نے کہا. ایمپریس مارکیٹ سے خریدی ایک کتاب میں ہی یہ اصطلاح میں نے پہلی بار پڑھی تھی. وہیں یہ خیال بھی آیا کہ جانے اس مارکیٹ میں گھومنے والوں کو یہاں کے ماضی اور پوشیدہ حسن کا شعور ہے بھی یا نہیں. بوڑھا امامی باجرہ تولتے ہوۓ فخریہ کہتا. یہ مارکیٹ وتی پرانی ہے جتا ملکہ ٹوریہ کا راج. پھر میرے خیال کا پرندہ اڑکر ڈیڑھ سو سال پیچھے پہنچ جاتا. ١٨٥٧ کی جنگ آزادی ناکام ہوئی تو انگریز سامراج نے کراچی کے لوگوں پر خوف طاری کرنے کے لئے اسی چوک میں باغی سپاہیوں کی گردنیں توپوں کے سامنے رکھ کر جسم سے جدا کر دی تھیں. پھر ١٨٨٤ میں یہ مارکیٹ تعمیر کی گئی اور ایمپریس اوف انڈیا ملکہ وکٹوریہ کے نام سے منسوب ہوئی. ڈی جے کالج کی طرح اس کا ڈیزائن اور تعمیر کا سہرا بھی میونسپل انجنیئر جیمز اسٹریچن کے سر ہے. بیچ میں بڑا سا کورٹ یارڈ تھا اور ارد گرد چار گیلریاں جن میں ٢٨٠ دکانیں اور چھوٹے اسٹالوں کی گنجائش موجود .سیر و تفریح کے لئے قریب ہی واقع جہانگیر پارک موجود. وجود کیا ہوتا ہے دادا جی؟ میرا ذہن اب تک شعور ذات کی بحث میں الجھا ہوا تھا. بولے، ایک ہی شخص کا ایک تو مادی وجود ہوتا ہے جس میں جسم، سماجی حیثیت، تعلقات، گھر گاڑی جیسی مادی چیزیں آ جاتی ہیں. لیکن سب سے اہم اس کا روحانی وجود ہوتا ہے. سوچ، اخلاقی نظام، معیارات ، دوسرے لوگوں اور کائنات اور خالق سے اس کا تعلق. وہ خود کو اپنے ذہن میں کسی خاص مقام یا روپ میں دیکھ کر ہی خود پر کوئی لیبل چپکاتا ہے اور پھر اپنے آپ کو ویسے ہی لہجے میں مخاطب کر کے اس اندرونی مکالمہ کے ذریعیے شعور ذات تک پہنچتا ہے. یہ کامیاب اندرونی سفر ہی دوسرے انسانوں اور سماج سے اس کے صحتمند تعلق کی بنیاد بنتا ہے………جاری ہے