Sattar Edhi Sahib is an icon of struggle for social justice in Pakistan. A philanthropist, social activist and a noble humanitarian worker. Enjoy the story of how he influenced the young minds thirty five years ago
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
سماجی انصاف، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، اڑسٹھواں انشاء، شارق علی
کراچی مون سون کی بارش سے بھیگا ہوا تھا۔ میڈیکل کا چوتھا سال اور نائٹ ڈیوٹی۔ ایک لاوارث مریض کی لاش کی تدفین کے لئے ایدھی سینٹر فون کیا تو صرف بیس منٹ بعد وارڈ کے دروازے پر دستک ہوئی۔ متوسط قد، توانا جسم، بھیگا ہوا خاکی شلوار قمیض اور داڑھی پر چمکتے بارش کے قطرے۔ میں ستار ایدھی کہہ کر ہاتھ بڑھایا تو شدت احترام سے میرے نوجوان کپکپاتے ہاتھوں نے ان کا استقبال کیا۔ کاروائی میں ہاتھ بٹایا تو خوش ہو گئے اور شاباشی دی۔ پھر میت ایمبولینس میں رکھ کر یہ جاوہ جا۔ یہ میری ایدھی صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔ انکل پینتیس سال پہلے کے ایدھی سینٹر کو یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ آئیڈیا تمہاری آنٹی کا تھا جن سے ان دنوں صرف دوستی تھی کوئی رشتہ نہیں۔ کالج میں ملتے تو بہت سی باتیں ہوتیں۔ دونوں آئیڈیالسٹک اور سماجی انصاف کا خواب دیکھنے والے۔ شاید یہی دوستی کی وجہ بھی تھی۔ ایدھی صاحب ہمارے ہیرو تھے۔ وہ ان لوگوں کی آواز تھے جن کی کوئی آواز نہ تھی۔ بے آسرا لوگوں کی محبت میں سرشار اور ذاتی زندگی قربان کر دینے والے۔ چھٹیاں آئیں تو ہم دونوں ایک ہفتہ کے لئے کھارادر سینٹر میں رضا کاربن گئے۔ مقررہ دن تمہاری آنٹی مجھ سے پہلے پہنچ کر سینٹر کی پہلی منزل پر بلقیس ایدھی کی ٹیم کے ساتھ زچہ و بچہ کی خدمت والے حصے میں مصروف ہو گئیں۔ میں گنجان گلیوں سے گزر کر کھارادرسینٹر پہنچا تو معمولی سی عمارت کی سیڑھیوں کے کنارے خالی جھولے رکھے دکھائی دئے جن میں لوگ بے آسرا بچے چھوڑ جاتے تھے۔ کسی سوال جواب کے بغیر۔ ساتھ کی دیوار پر گتے کے لٹکتے ٹکڑے پر لکھا تھا مولا نا موجود ہےگا۔ مجھے گراونڈ فلور میں کلینک نما کمرے میں دوسرے رضاکاروں کے ساتھ کام کرنے کی ذمہ داری ملی۔ بڑی سی میز پر ڈونیشن کی دوائیوں کا ڈھیر تھا اور میز کے چار کونوں میں چار کرسیوں پر رضا کارڈاکٹر موجود جن میں میری مرضی اور اہلیت کے برخلاف مجھے بھی شامل کر لیا گیا تھا۔ ہر کرسی کے ساتھ مریض کا اسٹول۔ رش اتنا کہ ایک اٹھتا اور دوسرا آتا۔ تفصیلی تشخیص کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ علامت سن کر جلد از جلد سامنےڈھیر میں سے علامات رفع کرنے کی دوا تلاش کیجئے اور مریض بھگتائے۔ ایک بار قریبی فلیٹ میں کسی کو مرگی کا دورہ پڑا تو مجھے رشتہ دار کے ساتھ علاج کے لئے بھیجنے کی تجویز ہوئی۔ میں نے سہم کر معذرت کرلی۔ ایدھی صاحب انتہائی مصروف۔ ملاقات اور گفتگو رہی لیکن بہت کم۔ کلینک کا نظام سائنسی بنیاد پر بہتر بنانے کا نکتہ نہ ٹھیک طرح سے میں سمجھا سکا۔ نہ ہی وہ سمجھ سکے۔ وہ خلوص نیت اور کھارادر انداز کی خدمت سے مانوس تھے میری پڑھی ہوئی درسی کتابوں سے نہیں۔ سیکھا کیا آپ دونوں نے؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ ایک ہفتہ بعد کالج میں ملے تو دونوں خدمت انسانی کے مظاہرہ سے بہت متاثر تھے۔ اور جان چکے تھے کہ صرف زکوۃ خیرات اور وسائل کی فراہمی سماجی بے انصافی کا مکمل حل نہیں۔ اصل بات شعور مندی کا فروغ ہے۔ حقیقی سماجی انصاف کی جدوجہد کی سمت ایسے نظام کا قیام اور اس پر عمل درآمد ہونا چاہئیے جو سب انسانوں کو برابر سمجھتا ہو نسل، جنس، مذہب اور امیری غریبی کا فرق کئے بغیر۔ عام لوگوں کے دل میں خود اپنے لئے حرمت کا احساس اور شعور مندی ہی سماجی انصاف حاصل کر سکتی ہے۔ انہیں دی گئیں زکوۃ، بھیک اور امداد نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے