Freedom of expression is a universal human right. Exercising this right to free speech in their profession, Pakistani journalists faces all kinds of threat but still carry on. Bravo!
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
صحافتی انقلاب، سیج، انشے سیریل، دسواں انشاء
ایڈیٹوریل بورڈ کی میٹنگ ختم ہوئی تو ٹی ہاوس میں پیالیوں کی کھنکھناہٹ، گرم چائے سے اٹھتی بھاپ، آلو بھرے سموسوں کی مہک اور مختلف سینڈوچز اور بسکٹوں کے دلکش منظر سے پاس سے گزر کر ہم اپنی مخصوص میز پر جا بیٹھے۔ پاکستان سے آئی ماس میڈیا ریسرچر لیلا نے صوفی کو سیج بلوگ کی اسٹوڈنٹ ایڈیٹر منتخب ہونے پر مبارک باد دی۔ اس آن لائن میگزین میں طلباء اور اساتذہ ہر موضوع پر اظہار رائے کرتے ہیں. پروفیسر گل بولے۔ دانشمندی سوچ کی آزادی سے جنم لیتی ہے۔ پاکستان میں جو دنیا میں صحافیوں کے لئے انتہائی خطرناک ملکوں میں سے ایک ہے، سچ پر مبنی صحافت کرنا انتہائی جرا تمندی ہے۔ کام کےدوران جان دینے والوں کی تعداد سینکڑوں اور تشدد کا سامنا کرنے والے ہزاروں میں ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر بلوچستان اور فاٹا کے صحافی ہیں۔ لیلا نے بسکٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔ لکھاری پر حملہ آزاد ی رائے، بلکہ معاشرے اور حکومت دونوں پر حملہ ہے۔ اسی لئے دفاع سب کا فرض۔ ہم صحافی یقین رکھتے ہیں کہ دفا ع اور منصفا نہ کاروائی ملز م کا اور حقائق جاننا پبلک کا حق ہے۔ بد قسمتی سے اکثر یہ دونوں باتیں ایک ساتھ ممکن نہیں ہو پاتیں۔ سچ کا سفر بے حد کٹھن ہے۔ اغوا، حبسِ بے جا، گرفتاری، تشدد، دھمکیاں، کردار کشی، حتی کے موت، سب آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ میں نے سموسے کا صحت مند لقمہ لیا اور کہا۔ لیلی پہلا اخبار کب نکلا؟ بولی۔ اخبار، کی پہلی صورت پپیرس پر لکھے ہوئے وہ تراشے تھے جو 59 ق م میں ہر روز روم شہر کے مختلف چوکوں میں لٹکا دئیے جاتے تھے تاکہ عوام سماجی اور سیاسی واقعا ت سے آگاہ رہ سکیں۔ ان کا نام تھا ایکٹا ڈایرنا یعنی روزانہ کا عمل۔ اس کا لکھنا اور دیگر انتظام حکومت کے ہاتھ میں تھے۔ ادھر چین میں 618 عیسویں میں ٹنگ ڈاینسٹی کے زمانے میں اے با ئو نامی گزٹ نکلتا تھا تاکہ سرکاری ملازم روز کی عدالتی کاروائی سے آگاہ رہیں۔ یہ سلسلہ 1911 تک جاری رہا۔ پروفیسر گل عینک صاف کرتے ہو ئے بولے۔ باقاعدہ اخبار جرمنی اور ہالینڈ میں 1609 میں نکلا اور سب سے پہلا انگریزی روزنامہ دی کورنٹ 1702 میں برطانیہ سے جاری ہوا۔ اٹھارویں صدی میں لکھنا پڑھنا عام ہوا تو اخبار کی مانگ بڑھی۔ پھر اسٹیم انجن ایجاد ہوا تو تقسیم دور تک آسان ہوئی۔ سرکولیشن سینکڑوں سے ہزاروں اور پھر لاکھوں تک پہنچی۔ لیلی نے پیالی میںاور چائے انڈیلی اور کہا۔انیسویں صدی میں صحافت نے محتسب کا کردار اپنایا۔ بے انصافی اور بد عنوانی کے خلاف جذباتی رپورٹنگ شرع ہوئی۔ چونکا دینے والی سرخیاں، تصویروں کی بہتات، طنز و مزح اور کارٹون استعمال ہوئے۔ زرد صحافت کی اصطلاح سامنے آئی۔ عالمی خبریں جمع کرنا مہنگا ہوا تو اخباری ایجنسیاں وجود میں آئیں جنہوں نے خبریں بیچنا شروع کیں۔ بیسویں صدی میں زمہ دارانہ صحافت شروع ہوئی۔ زرد صحافت کے کچھ اصول اپنا لئے گئے اور کچھ نئے اخلاقی ضا بطوں کی پابندی شروع ہوئی۔ پیپربیک کتابوں کا چھپنا عام ہوا تو صحافتی کتابیں بھی مقبول ہوئیں ٫ پروفیسر بولے۔ انفرادی صحافیانہ تہلکے کی ایک مثال ہارورڈ سے تعلیم یافتہ اور سابق فوجی ڈینائیل ایلسبرگ کا 1971 میں پینٹاگون پیپرز کا انکشاف ہے۔ ویتنام میں امریکی مداخلت کے ثبوت پیش کئے گئے تو یہ صدر نکسن کے استعفی کی بڑی وجہ بنی۔ اکیسویں صدی انٹرنیٹ کی صدی ہے۔ لیکن آج بھی روائتی صحافتی ادارے دنیا بھر کی خبریں امریکہ کی ایسوسی ایٹڈ پریس، برطانیہ کی ریوٹرس اور فرانس کی ایجنسی فرانس کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ میرے خیال میں سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ایک نئے صحافتی انقلاب کا آغاز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے