In the eternal city of Rome, Trevi Fountain is a triumphant example of Baroque art using water and stone commemorating a moment of compassion in history
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
گرمیوں کی خوشگوار رات میں اسپینش اسٹیپس نامی چوک سے پیدل ہی نرم ہوا کا ہاتھ تھامے مشہور زمانہ ٹریوی فاؤنٹین کی طرف چلے. آبدی شہر روم کی قدیم گلیوں کے دونوں جانب نئی اور پرانی عمارتیں، ریستوران اور مے خا نے تھے. دادا جی اٹلی کو یاد کر رہے تھے. بولے. گلیوں کے کنارے رنگین چھتریوں تلےرکھی اور موم بتیوں سے روشن میزوں پر ملک ملک کے سیاح اور ان کے سامنے سجے خوش رنگ کھانے اور مشروبات. ہر سمت سے آتی اطالوی موسیقی کی رومانوی آواز . فوارے تک پہنچے تو رات گہری ہو چلی تھی. ہلالی شکل کے چبوترے پر بیٹھے اور کھڑے دنیا بھر کے سیاح اپنی زبانوں، اپنے انداز میں ہنستے بولتے تصویریں بنوا رہے تھے. سامنے سفید پتھروں سے تراشے شاھکار مجسمے اور بڑے سے حوض کے شفاف پانی میں گرتے فواروں کی جل ترنگ. حوض کی تہہ میں انسانی آرزوں کی علامت پھینکے گئے وہ سکّے تھے جو اس خوبصورت مقام کی ایک دیرینہ رسم ہے. پیچھے تین منزلہ سفید پتھروں سے بنی دیوار نما یادگار تھی جس کے ہر کونے، ہر ستون اور ہر زاویے پر مزید مجسمے اور تراشے ہوۓ حسین نقش و نگار تھے. سنگ تراشی کا فن کب شروع ہوا دادا جی؟ میں نے اچانک پوچھا. بولے. ہزاروں سال پہلے شاید شکاریوں کی جادوئی مدد حاصل کرنے کے لئے اس کی ابتدا ہوئی ہو. تہذیبیں پروان چڑھیں تو حکمرانوں کے لازوال ہونے کی خواہش نے سنگتراشوں کی سر پرستی کی. یونانیوں نے انسانی خد و خال کے توازن کو عروج پر پہنچایا . پھر عیسائیوں نے چرچ کو فرشتوں اور شیطانوں کے مجسموں سے آراستہ کیا تا کہ جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے وہ بھی ان کرداروں کو جان سکیں. زیادہ تر مجسمے در اصل یادگاریں ہیں. پندرھویں صدی میں اٹلی کے ہر شہر کی گلیوں میں بائبل کے کردار مجسموں کی صورت بکھرے ہوۓ تھے. اب تو نیو یارک ، لندن پیرس، اور ہر بڑے شہر کے چوک میں مجسمے اور فوارے دکھائی دیتے ہیں. یانی آپا بولیں. ٹریوی فاؤنٹین دراصل میلوں لمبی اس زیر زمین آبی گزرگاہ کا آخری مقام تھا جو ١٩ ق م میں روم کے بادشاہ نے تعمیر کی تھی اور جس تک ایک حسین دوشیزہ نے پیاسے رومن سپاہیوں کی رہنمائی کر کے ان کی جان بچائی تھی . کسی مہربان لمحے کی ایسی خوبصورت یادگار دنیا میں کہیں اور نہیں. رحمدلی اور مہربانی ایک ہی بات ہے نا دادا جی؟ میں نے پوچھا. بولے. دوسروں کے دکھ کو محسوس کرنا رحمدلی ہے. مد ا وے کے لئے وسائل کی قربانی پر راضی ہو جانا مہربانی ہے. تمہیں بابل کو ننگے پیر دیکھ کر رحم آیا تھا. لیکن جب تم نے اسے اپنے پرانے جوگر پہنا دیئے تو یہ مہربانی ہوئی . اچھے لوگ ہر روز مہربانی کا موقع تلاش کرتے ہیں کیونکہ ان کے لئے رشتے اور محبّت اہم ہوتی ہے . یانی آپا بولیں. باروک طرز تعمیر میں ٹریوی فاؤنٹین دنیا کا سب سے مشہور فوارہ ہے جس پر بہت سی فلموں کی عکس بندی ہو چکی ہے. چوتھی صدی عیسویں میں روم کی گلیوں میں ایک ہزار سے زیادہ ایسے فوارے تھے. پھر وقت نے آبی گزرگاہیں معدوم کر دیں . لیکن مہربان لمحے کی یہ حسین یادگار آج بھی زندہ ہے…….جاری ہے