Founded in the early 20th century, Bombay Bakery is a household name for those who spent their childhood in Hyderabad, Sindh. Unique aroma and brown-textured buttery cakes combined with nostalgia are no less than a sugary magic
I am Azm, a student at Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
میٹھا جادو، سیج انشے، سیریل، اڑتیسواں انشاء، شارق علی
سات برس کا تھا جب پہلی بار بمبئی بیکری کا کیک چکھا۔ بٹو باجی کی شادی میں ہوئی رسموں کی نقالی میں گوٹا کناری دو پٹہ اوڑھے میری ہم عمر پڑوسن دوست نے پچھلے لان میں چمبیلی کا ہار پہنا کر گھر سے چرائے کیک کے ٹکڑے سے منہ میٹھا کروایا تھا میرا۔ جانے کیا جادو تھا ریسیپی میں۔ وہ مزہ آج بھی یاد ہے۔ کبھی حیدرآباد جانا ہو تو قدم بے اختیار بچپن کے اسی ذائقہ کی سمت اٹھتے ہیں۔ کچھ اور تفصیل منہ میٹھا کروانے کی؟ سوفی نے معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے پروفیسر گل سے پوچھا۔ بات بدلتے ہوے بولے۔ پورے حیدرآباد میں دھوم تھی بمبئی بیکری کے کیک کی۔ گرمی ہو یا سردی، بنگلے نما دکان کے سامنے گھنٹوں انتظار کرتی گاہکوں کی لمبی قطار۔ گیٹ کھلنے پر ہال میں داخل ہوتے ہی کوفی اور میکرونی کیک کی مکھنی مہک سے جی کھل اٹھتا۔ دو سے زیادہ کیک نہ ملنے کی پابندی کے باوجود گھنٹے بھر میں دکان خالی۔ کمارتھاڈانی نے انیس سو گیارہ میں یہ دکان کھولی تھی۔ تب سے اسی خاندان کے زیرِ انتظام ہے۔ آج بھی وہی بنگلا نما دکان، چند قسموں کے کیک، ذائقہ اور معیار حتی کہ پیکنگ بھی وہی۔ کیک پہلے پہل کہاں پر بنے؟میں نے پوچھا۔ بولے۔ قدیم مصری وہ پہلی تہذیب تھے جو بیکنگ کے فن سے واقف تھے۔ میٹھی روٹی تو شاید وہیں بنی ہو لیکن کیک کی باقاعدہ شکل یونان اور رومن زمانے میں دنیا کو ملی۔ خالصتاً یورپی چیز ہے کیک۔ انگریزی کے سوا کسی اور زبان میں کوئی ایسا لفظ نہیں جو کیک کی مکمل ترجمانی کر سکے۔ کہتے ہیں وایکنگس نے سب سے پہلے آٹے میں شہد ملا کر کیک سے ملتی جلتی مٹھائی تیار کی تھی۔ سوئس جھیلوں کے کناروں پر آباد قدیم بستیوں میں شہد ملے گندم اور جوار کے دانوں کو پتھروں پر کیک کی صورت پکانے کے شواہدبھی ملتے ہیں۔ بعد میں انڈے، دودھ اور چکنائی سے اسے مزید خوش ذائقہ بنایا گیا۔ پھر ان میں کشمش اور دیگر میوہ جات بھی استعمال ہونے لگے۔ سترہویں صدی میں کیک سانچوں میں ڈھل کر بننے لگے ۔ اب تو بیکنگ کرنا پورے یورپ بلکہ دنیابھر کا محبوب مشغلہ ہے۔ کچھ ذکر بر صغیر کی مٹھائیوں کا بھی ؟ ایلکس نے ہماری گفتگو میں دلچسپی لیتے ہوئےکہا۔ پروفیسر بولے۔ دیسی روایت میں خوشی کا اعلان مٹھائی کھلاے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ دودھ اور شکر پاکستانی مٹھائی کے دو بنیادی اجزاء ہیں مثلاً برفی اور اسے تازہ کھانے کا رواج ہے. اب تو مختلف رنگ، کھوپرے، بادام، پستے، اخروٹ، کاجو، یا دیگر ذائقوں کے اضافہ سے اسے اور لذیذبنا دیا گیا ہے۔ سوفی بولی۔ کھوئے اور آٹے سے بنی شیرے میں تر زعفران چھڑکی گول اور ٹھنڈی گلاب جامن کا تو جواب ہی نہیں لیکن رمضان میں گرم گرم اترتی جلیبیاں جن سے دانت لگتے ہی شیرے کی پچکاری نکلتی ہے، بھی خاصے کی چیز ہے۔ بعض شوقین تو صبح سویرے گرم دودھ جلیبی کا ناشتا بھی کرتے ہیں۔ میں نے کہا۔ پیدائش کی خوشی میں موتی چور کے لڈو اور میلاد یا ختمِ قرآن پر تقسیم ہوتی سوندھی بالوشاہی بھی قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن اڑیسہ سے ابتدا ہوے رس گلے جن کی مقبولیت پہلے بنگال اور پھر پورے برِ صغیر میں پھیل گئی تھی تازہ پنیر، آٹے اور شیرے سے تیار ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کے دیوالی اور عید کے موقعوں پر سرحدی کشیدگی کم کرنے کے لئے جب فوجیں اس مشترکہ روایتی سوغات کا تبادلہ کرتی ہیں تو دونوں ملکوں کی عوام کے دلوں میں امن کی امید بڑھ جاتی ہے۔۔۔۔۔ جاری ہے