Find a glimpse of Balochistan, a province that has the poorest infrastructure in Pakistan, and Mama Baloch, an old man well known for seeking justice for innocent missing people, in this story
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
ماما بلوچ، سیج، انشے سیریل، پچیسواں انشاء، شارق علی
بلوچ تعمیراتی روایت سے ہم آہنگ، قبائلی حویلی کی گیلی مٹی سے بنی فصیل جیسی چار دیواری والے چار ستارہ ہوٹل کے پس منظر میں سنگلاخ چلتن پہاڑ تھا۔ کوئٹہ کے مرکز اور کنٹونمنٹ میں صوبائی اسمبلی کی عمارت کے قریب واقع سیرینہ ہوٹل کی اندرونی سجاوٹ میں بلوچی ثقافت بہت نمایاں تھی۔ دن بولان میڈیکل کالج کی ورکشاپ میں گزرا اور شام میں ہوٹل کے کورٹیارڈ میں فواروں کے گرد سجے پھولوں اور پھل دار درختوں کی آرائش میں پر تکلف ڈنر اور زندہ موسیقی کا اہتمام تھا۔ بولی ووڈ کے گانے “کس کا ہے یہ تم کو انتظار” کی دلکش گائکی اور خوبصورت دوستوں کے ساتھ نے وہ شام یادگار بنا دی۔ رمز بلوچستان کا ذکر کر رہا تھا۔ بولا. رات گئے بستر پر لیٹا تو کوئٹہ کے قیام کی جھلکیاں نگاہوں سے گزریں۔ منان چوک اور شاہ جہاں چوک دیکھا تو مایوسی ہوئی۔ کراچی جیسا پوش ماحول کہاں۔ لیکن لیاقت بازار، سورج گنج اور قندھاری بازار کی رونقوں کا اپنا الگ مزاج ہے۔ چوڑیوں کی دکان دیکھ کر تمہاری بہت یاد آئی سوفی۔ سر اور منہ چادر سے ڈھانکے شاپنگ کرنا پڑتی اور جینز پہننا تو نا ممکن ۔ روایتی کھانے بے مثال۔ لیمب روش، بلوچی کباب، بولانی اور بلوچی سجی کا تو جواب ہی نہیں۔ پشتو کھیل بزکشی دیکھنے کی حسرت ہی رہی جس میں دو ٹیمیں گھڑ سواری کرتے ہوئے قربان شدہ بکرے پر چھینا جھپٹی کرتی ہیں۔ پروفیسر گل بولے۔ کوئٹہ غالباً پشتو لفظ کوٹ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں قلعہ۔ محافظوں کی طرح چار پہاڑوں مردار، زرغون ، اکاتو، اور چلتن نے اسے گھیر رکھا ہے۔ گیارویں صدی میں محمود غزنوی نے فتح کیا تھا یہ شہر۔ ارد گرد پھلوں کے باغات کی کثرت ہے اور ویران پہاڑوں میں ما رخور، بھیڑیئے، سنہری عقاب اور دیگر جنگلی جانور پائے جاتے ہیں۔ خشک میوے جیسے یہاں ویسے پاکستان بھر میں کہیں اور نہیں۔ ائیرپورٹ اور ریلوے اسٹیشن سمندر سے ساڑھے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر۔ بیس کلو میٹر جنوب مغرب میں ہزارگنجی نیشنل پارک کا وسیع علاقہ ہے اور ستر کلو میٹر دور وادی بولان میں پیر غائب کی خوبصورت آبشار۔ پکنک منانے کے لئے آئیڈیل جگہ۔ اور باقی بلوچستان؟ میں نے پوچھا۔ رمز بولا. اگلے دن فلائٹ کینسل نہ ہوتی تو شاید خشک پہاڑوں اور بنجر میدانوں کا حسن نگاہوں سے اوجھل ہی رہتا کراچی پہنچنا ضروری تھا۔ اس لئے میزبان نے کار اور ڈرائیور کا انتظام کیا۔ قاسم اس روٹ سے بخوبی واقف تھا۔ دراز قد، بلوچ خدو خال اور باتوں کا رسیا۔ ساڑھے تین سو میل کے سفر میں دس گھنٹے کیسے گزرے معلوم نہیں۔ خضدار پہنچے تو موولا چوٹوک جانے کو جی بہت مچلا۔ خشک پہاڑوں سے پھوٹتے سبز پانی کے جھر نے۔ چٹانی صحرا میں ایک دلفریب نخلستان۔ قاسم نے بتایا کے موولا دریا کے ساتھ جھل مگسی ریسنگ ٹریک بھی لیں تو بھی کئی گھنٹے درکار ہیں۔ کراچی دور تھا اور رات میں سفر غیرمحفوظ ۔اس لئے نہ جا سکے۔ پروفیسر گل نے کہا۔ پاکستان، ایران اور ترکی کو ملانے والی نیشنل ہائی وے پر واقع خضدار عرب تسلط کے زمانے میں توران صوبے کی اہم چھاؤنی اور دارلخلافہ تھا۔ پھر یہ قلات کی ریاست میں شامل ہوا۔ شہر کے نواح میں عربوں کے تعمیر شدہ قلعے کے نشان ملتے ہیں۔ کوئی پانچ چھ لاکھ کی آبادی میں بزنجو ، مینگل، زہری، زارکزئی گویا سب ہی قبیلوں کی نمائندگی موجود۔ کوئٹہ کے بعد دوسری بڑی کنٹونمنٹ۔ ایک یونیورسٹی اور چھوٹا سا ایئر پورٹ بھی۔ بلوچستان معدنیات مثلاً قدرتی گیس سے مالا مال ہے۔ لیکن پورے ملک کو گیس فراہم کرنے والے خطے کی غربت جوں کی توں ہے۔ گوادر کی سی پیک میں شمولیت نے اسے خبروں کا مرکز تو بنا دیا ہے لیکن عام لوگوں تک خوشحالی پو ھنچنے کا خواب جانے کب پورا ہو گا۔ بلوچستان کا رقبہ چوالیس فیصد پاکستان ہے۔ لیکن سہولیات کی فراہمی میں لگتا ہے یہ ملک کا حصہ ہی نہیں۔ رمز نے کہا۔ قاسم سے سیاسی حالات پر گفتگو ہوئی تو بلوچ عوام کا نکتہ نظر اجاگر ہوا۔ ساڑھے تین ہزار میٹر اونچے زرغون پہاڑ جیسے بلند حوصلہ لوگ، بہتر سالہ ماما قدیر بلوچ اور اس کے ساتھیوں کو سلام پیش کرتے ہیں جو تین مہینے تک پیدل سفر کر کے پاکستان بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اپنے گم شدہ پیاروں کی بازیابی کی دلیرانہ جدو جہد کرتے رہے۔ ان مظلوموں کو سلام جو حقوق مانگنے کی پاداش میں تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔۔۔ جاری ہے۔