Recreational boating in Karachi goes back to 1881. City has maintained the enthusiasm since. Enjoy the glimpse of creek in 70s and before in this story
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
کشتی کنارے سے دھکیلی گئی اور ہم چپو چلاتے ہوئے چاندنی رات اور خوشگوارسمندری ہوا کا ہاتھ تھامے کریک کے پر سکون پانیوں میں آگے بڑھے۔ کناروں کی روشنیاں لہروں سے مل کر یوں جھلملائیں جیسے ذ ہن کے شیش محل میں جگ مگ کرتی یادیں۔ پروفیسر گل کراچی کا ذکر کر رہے تھے۔ بولے۔ کریک کے ایک جانب بوٹ کلب، کراچی کلب اینکسی اور بیچ لگژری ہوٹل کی عمارتیں ہیں اور دوسری جانب منگروو سے ڈھکے جنگل اور سمندری اسکاوٹس کی تربیت کے لئے بنی جہاز نما عمارت۔ اسکاوٹ بننے کے شوق میں ایک دن ہم نے بھی گزارا تھا وہاں اسکول کے دوستوں کے ساتھ ۔ کوئی اور بچپن کی یاد اس علاقے کی؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ اسی ساحل پر جہاں اب بڑی سی جدید عمارت ہے بالکل اسی جگہ تھی کراچی کلب اینیکسی کی پرانی عمارت بھی۔ اب تو معدوم ہو چکی ہے وہ۔ چھٹی ہوتی اور موسم ابر آلود تو پاپا کہتے اینیکسی چلو۔ ستر کے دہے کے نسبتا پرسکون ٹریفک سے گزر کر یہاں پہنچتے۔ سر سبزوشاداب پھولوں سے لدی جھاڑیوں سے گھرے ، زمانہ شناس دل کشی سمیٹے، کشادہ لان میں گھنے درختوں کے نیچے سجی میز کرسیوں پر گھنٹوں گزارتے، ایک کونے میں بار بی کیو کا مہکتا انتظام۔ عمارت بہت سادہ اور مختصر سی۔ بیروں سے یاد اللہ ایسی جیسے خاندان کے افراد۔ پکوڑوں، سموسوں اور کبابوں کے لاجواب چٹخارے۔ بزرگ لان میں محفل جماتے اور ہم بچے مون سون کی تیز بارشوں میں خوب دھما چوکڑی مچاتے۔ اوربوٹ کلب؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ بوٹ کلب پہلے سیلنگ کلب کہلاتا تھا۔ یہ باقاعدہ طور پر تو 1911 میں قائم ہوا لیکن کراچی میں شوقیہ کشتی رانی کے آغاز کا پہلا سراغ اٹھارہ سو اکیاسی میں کراچی سے نکلنے والے ڈیلی گزٹ میں چھپنے والے اس نوٹس سے ملتا ہے جس میں موسم کی خرابی کے باعث کنارے کو شوقیہ کشتی رانی کے لئے نا مناسب قرار دیا گیا تھا۔ بانی کون تھا بوٹ کلب کا؟ رمز نے پوچھا۔ بولے۔ قیام کا سہرا کسٹمز سروس کے مسٹر پونیٹ کے سر جاتا ہے جو کلب کے پہلے سربراہ منتخب ہوئے۔ پہلے پہل یہ منوڑا میں قائم ہوا تھا۔ اگلے ہی سال انڈو یورپین ٹیلیگراف کمپنی کی مالی مدد سے اسے کراچی منتقل کیا گیا۔ پھر 1925 اور 1930 میں عمارت کو مزید وسعت دی گئی۔ ان دنوں کشتیوں کی ریس کا آغاز نیٹو جیٹی سے ہوا کرتا تھا اور چائے کا پر تکلف اہتمام منوڑا کے جزیرے پر۔ کچھ کشتیاں 1932 میں ڈرگ روڈ کے ائیر فورس کے ورک شاپ میں تیار کی گئیں تھیں۔ پھر دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو بہت سالوں تک بوٹ کلب ویران رہا۔ تقسیم کے بعد کراچی دارالخلا فہ بنا تو ممبرز کی تعداد تیزی سے بڑھی۔ پھر بھی 1951 تک صرف 151 ممبر تھے بوٹ کلب کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے