Jesse Owens is the most influential athlete of the world who overcame poverty and racism by winning four gold medals at the 1936 Berlin Olympic Games
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
جیسی، دادہ اور دلدادہ، انشے سیریل، تریپنواں، انشاء، شارق علی
سیٹ کی آواز پر گہرا سانس لیا اور بینگ ہوتے ہی پوری طاقت سے سانس باہر نکالتے ہوئے سو میٹر کی فنش لائن کی سمت دوڑا اور سینہ آگے نکال کر ڈ پ کرتے ہوئے فنش کیا۔ پریکٹس رن کے دوران بتائی ہوئی ٹپس پر عمل کیا تویانی آپا نے تھمب اپ کرکے شاباش دی ۔ انٹر اسکولزنزدیک تھےاور میرا مقابلہ قد کی بنیاد پر بڑی عمر کے لڑکوں سے تھا۔ یانی آپا جو اپنے کالج کی بہترین اتھلیٹ ہیں میری کوچ تھیں۔ پریکٹس سیشن ختم ہوا تو ٹریک سے باہر آئے۔ میرون ٹریک سوٹ اورپونی ٹیل باندھے یا نی آپا اور میں ایرینا کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ بولیں. بڑی عمر کے لڑکوں سے مقابلے کے امتیازی سلوک کا خیال آئے تو جیسی اوونزکی کہانی یاد رکھنا ممدو۔ وہی نا جس نے ہٹلر کا غرور خاک میں ملایا تھا؟ میں نے کہا ۔ بولیں۔ ہاں وہی۔ انیس سو تیرہ میں الاباما میں پیدا ہونے والا سیاہ فام جیسی ایک لیجینڈ ہے، شاید انسانی تاریخ پر سب سے گہرا اثر ڈالنے والا اتھلیٹ۔ بچپن سے برق رفتار جیسی نےسو میٹرنو اعشاریہ چارسیکنڈ میں بھاگ کر دنیا کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ پھر دو سو میٹر۔ دو سو بیس گزکی ہرڈ لس اور لانگ جمپ میں انیس سوچوراسی تک قائم رہنے والا عالمی ریکارڈ۔ سیڑھیاں ختم ہوئیں تو ہم پہا ڑی پربنے جمنازیم کی عمارت کے ساتھ لگے باغ میں گلاب کے پھولوں سے بھری کیاری کے ساتھ بینچ پر بیٹھ گئے۔ یا نی آپا نے بات جاری رکھی۔ ان دنوں امریکا میں نسلی امتیازعروج پر تھا۔ اتھلیٹک سٹارہونے کے باوجود اسے گورے ہاسٹل میں قیام کی اجازت نہ تھی۔ کھانا صرف سیاہ فام ریستورانوں میں اور اسکالرشپ کے حق سے بھی محروم۔ شام سنہری ہو چلی تھی اور ہماری بینچ سے دور تک دکھائی دیتا منظر قابل دید تھا۔ سفید لائنوں والا سرخ بیضوی ٹریک چوکور سبز میدان کو گھیرے ہوئے تھا۔ پیچھے دیوار کے ساتھ لگے پام کے درختوں کی قطار تھی۔ دائیں طرف سنگ سرخ سے بنے یونیورسٹی کے بلڈنگ بلاکس۔ اور سامنے کئی سمتوں سے آتی سڑکوں کا ملتا، تقسیم ہوتا، پھر گلے ملتا فلائی اوور۔ جی چاہا کہ میں اور یانی آپا یونہی اس بینچ پر بیٹھے رہیں اور یہ شام کبھی ختم نہ ہو۔ انہوں نے خاموشی کو توڑا اور بولیں۔ انیس سو چھتیس میں برلن اولمپک ہوا تو ہٹلرجرمنی کا حاکم تھااور نازی سوچ اپنے عروج پر۔ اولمپک کووہ جرمن قوم کی نسلی برتری ثابت کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ جیسی نے چار اہم اولمپک گولڈ میڈل جیت کر ان کے عزائم خاک میں ملا دیئے ۔ اس جیت نے اسے گورے اتھلیٹس کے ساتھ سفر کرنے اور ریسٹورانوں میں جانے کی آزادی دی۔ جیسی کی یہ کامیابی امریکا میں برابری کے حقوق کی جنگ کا بھرپور آغاز تھا۔ جیسی انیس سو اسی میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ برلن کی ایک سڑک اور اریزونا کا ایک ہسپتال اس کے نام سے منسوب ہے۔ وہ کہتا تھا کامیابی کے خواب سب دیکھتے ہیں لیکن تعبیر صرف ثابت قدم، مسلسل جدوجہد اور نظم و ضبط کی پابندی کرنے والوں کو ملتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے